Book Name:Ronay Wali Ankhain Mango
حضرت رَیَاح قَیْسی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ بھی رونے لگے، بچہ تو چُپ ہو گیا مگر آپ صبح تک روتے رہے۔
میں نے اتنا رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: بچہ رویا تو مجھے اَہْلِ جہنّم کا رونا یاد آ گیا، آہ! جہنّمی جہنّم میں روتے ہوں گے، وہاں کوئی اُن کا مددگار نہیں ہو گا۔ ([1])
حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کا گِرْیَہ
*حضرتِ سفیان رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک دن حضرتِ عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی مَجْلِس میں گفتگو کا سِلْسِلَہ جاری تھا مگر آپ بالکل خاموش بیٹھے تھے ، پوچھا گیا:حُضُور! کیا بات ہے آپ خاموش کیوں ہیں ؟فرمایا:میں اہلِ جنّت کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ وہ کس طرح خوشی خوشی ایک دوسرے سے ملاقات کیا کریں گے!مگر دوزخی لوگ ایک دوسرے کو بے قراری سے مدد کے لیے پُکارا کریں گے۔اتنا کہنے کے بعد آپ رونے لگے۔([2]) *حضرتِ عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ ایک مرتبہ رونے لگے ، آپ رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کو روتا دیکھ کر آپ کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت عبدُالملک رَحمۃُ اللہ علیہا بھی رونے لگیں بعد میں دیگر گھر والے بھی رونے لگے ، جب رونے کا سِلْسِلَہ تھما تو عَرض کی گئی :اے اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن!آپ کیوں رو رہے تھے ؟فرمایا:مجھے بارگاہِ الٰہی میں حاضِر ہونا یاد آ گیا تھا جس کے بعد کوئی جنَّت میں جائے گا تو کوئی دوزخ میں، یہ کہہ کر آپ رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے چیخ ماری اور بے ہوش گئے ۔([3]) *حضرتِ عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے ایک غلام کا بیان ہے:میں رات کے وَقْت آپ رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضِر رہتا تھا ، اکثر اَوْقات آپ رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ خوفِ خُدا سے روتے رہتے تھے،ایک رات آپ