Book Name:Tere Deen Ki Sarfarazi
بھی بڑی قربانیاں پیش کرنی چاہیے)۔
کروں تیرے نام پہ جاں فِدا، نہ بس ایک جاں، دوجہاں فِدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں([1])
پیارے اسلامی بھائیو! اب حضرت خُبَیب رَضِیَ اللہ عنہ نے مجمع پر نظر دوڑائی، وہاں سب غیر مسلم ہی تھے، آپ نے اللہ پاک کے حُضُور عرض کیا: یا اللہ پاک! یہاں تو مجھے سب دُشمن ہی نظر آ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی مَحْبُوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے حُضُور میرا سلام نہیں پہنچائے گا۔ اے مالِکِ کریم! تُو ہی میرا سلام مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے حُضُور پہنچا دے۔
حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: عین اسی وقت پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم مدینہ منورہ میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے، حضرت جبریلِ امین علیہ السَّلام حاضِر ہوئے اور حضرت خُبَیب رَضِیَ اللہ عنہ کا سلام پہنچا دیا۔
اب مکّے والوں نے حضرت خُبَیب رَضِیَ اللہ عنہ کو دردناک طریقے سے شہید کر دیا۔ آپ زخموں سے نڈھال ہو کر زمین پر گِرے، چہرۂ پاک قبلے کی طرف ہو گیا اور رُوح پرواز کر گئی۔ مکّے والوں نے بار بار آپ کا چہرہ قبلے سے ہٹانا چاہا مگر آپ کا چہرہ قبلے کی طرف ہی رہا۔([2])
امیں ہیں یہ قرآن و دِینِ خُدا کے مَدارِ ہدیٰ اعتبار صحابہ
نمایاں ہیں اِسلام کے گلستاں میں ہر اِکْ گُل پہ رنگِ بہار صحابہ
یہ مُہریں ہیں فرمانِ ختمُ الرُّسُل کی ہے دِینِ خُدا شاہکارِ صحابہ