Book Name:Hum Nay Karbala Say Kia Seekha

سالہ زِندگی کربلا کے انتظار میں بَسَر فرمائی اور بالآخر میدانِ کربلا میں اپنے  نانا جان ،  رحمتِ رحمٰن صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے دِین پر پہرا دیتے ہوئے نہایت عزّت و شان کے ساتھ رُتبۂ شہادت کو سینے سے لگا لیا۔

گھر لُٹانا جان دینا ،  کوئی تم سے سیکھ جائے جانِ عالَم ہو فِدا اے خاندانِ اَہْلِ بیت ( [1] )

 ( 3 )  : غیر مسلم مُفَکِّر نے تیسری بات کہی کہ جو کامیابی کا طلب گار ہے ،  اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتاہو ،  یعنی اُس پر کیسا ہی کڑا وقت کیوں نہ آ جائے ،  وہ اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماند نہ پڑنے دے ،  ہر وقت ،  ہر حال میں سوچ سمجھ کر بہتر سے بہترین فیصلہ کرے۔ یہ ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے ،  ہمارے ہاں کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو اس کے اَہْلِ خانہ کو ،  والدین کو بہت سنبھل کر طریقے سے خبر دینی ہوتی ہے کہ کہیں اچانک غم کی خبر سُن کر ہوش ہی نہ کھو بیٹھیں  مگر قربان جائیے !  امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ  کی ہمّت اور حوصلے کی کیا شان ہے... ! ! آپ حضرت علی اَصْغَر رَضِیَ اللہ عنہ  کا لاشہ مبارک اپنے ہاتھوں پر اُٹھاتے ہیں ،  حضرت علی اکبر رَضِیَ اللہ عنہ  کا لاشہ مبارک اُٹھاتے ہیں ،  بھائی ،  بھتیجے ،  بھانجے ،  72 تَن میدانِ کربلا میں امامِ حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ  کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہیں ،  آپ خود اُن کے مبارک لاشے اُٹھا کر خیموں کے پاس رکھتے ہیں ،  ایسے غم اور پریشانی کے باوُجُود ہوش و حَواس سلامت ہیں ،  فیصلہ کرنے کی طاقت بحال ہے ،  تاریخ کی کسی کتاب سے دُنیا کا کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ  نے میدانِ کربلا میں غم کی شِدَّت کے سبب کوئی ایک فیصلہ بھی شریعت کے خِلاف کیا ہو ،


 

 



[1]...ذوقِ نعت ،  صفحہ : 103۔