Book Name:Hum Nay Karbala Say Kia Seekha

  یہاں تک کہ دِن میں تارے نظر آنے لگے ،  کئی روز تک آسمان سے خُون برستا رہا ،  اس کے اَثَر سے دیواریں اور عمارتیں رنگین ہو گئیں ،  جو کپڑا اس سے رنگین ہوا ،  اس کی سرخی پُرزَے پُرزَے ہونے تک نہ گئی ،  بیت المقدس میں جو پتھر اس روز اُٹھایا جاتا ،  اس کے نیچے سے تازہ خون نکلتا تھا ،  یہ عالَم دیکھ کر لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید قیامت قائِم ہو گئی ہے۔ ( [1] )  غرض زمین و آسمان میں ایک غم کی کیفیت تھی ،  تمام دُنیا رنج و غم میں گرفتار تھی ،  آسمان رویا ،  زمین روئی ،  جنّات کے غمگین اَشْعار پڑھنے کی آوازیں سُنی گئیں ۔اللہ اکبر !

ہزاروں میں بہَتَّر ( 72 )  تَن تھے تسلیم و رضا والے     حقیقت میں خُدا ان کا تھا اور یہ تھے خدا والے

کسی نے جب وطن پوچھا تو حضرت نے یہ فرمایا :        مدینے والے کہلاتے تھے ،  اب ہیں کربلا والے

حسین ابنِ علی کی کیا مدد کر سکتا تھا کوئی       یہ خود مشکل کُشا تھے اور تھے مشکل کشا والے

دوائے دَرْدِ عصیاں پنج تن کے در سے ملتی ہے          زمانے میں یہی مشہور ہیں دارُالشفا والے

کربلا دَرْسِ زِندگی ہے

اے عاشقانِ رسول !  یقیناً کربلا نہایت غمناک اور دِل دِہلا دینے والا واقعہ ہے ،  مگر یاد رکھئے !  کربلا صِرْف ایک سانحہ نہیں ،   سانحے دُنیا میں بہت ہوئے ہیں ،  ظُلْم و سِتَم کی بڑی بڑی داستانیں اس زمین پر رقم ہوئیں مگر وہ سب مٹ گئیں ،  آج لوگوں کے دِل و دِماغ میں اُن کا خیال تک موجود نہیں ،  اگر کربلا بھی صِرْف ایک سانحہ ہوتا تو تقریباً   1 ہزار 3سو 82سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوُجُود اسے ذِہنوں میں یُوں تازہ نہ رکھا جاتا ،  لہٰذا کربلا صِرْف ایک سانحہ نہیں ،   یہ دَرْسِ زِندگی کی پُوری ایک کتاب بھی ہے ، واقعۂ  کربلا ہمیں


 

 



[1]...الصواعق المحرقۃ ،  الباب الحادی عشر ،  فی فضائل  اہل البیت ،  صفحہ : 240-241۔