Book Name:Silah Rehmi
شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ ان کی برکت سے بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی ناراضیوں اور ان کے سبب پیدا ہونے والی دُوریوں سے کافی حد تک چھٹکارا مل جائے گا۔ بَسا اَوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو (2)قریبی عزیز آپس میں ناراض ہو جاتے ہیں اور باوُجُود کوشش کے آپس میں صُلح صفائی کی ترکیب نہیں بن پاتی، ایسے موقع پر وہ رشتے دار مُشکل کا شکار ہوتےہیں جو ان دونوں سے تعلُّق رکھتے ہوں۔ ناراض رشتہ داروں میں سے ہر ایک سے بیک وَقْت کیسے بنا کے رکھی جائے اور دونوں کو خُوش کیسے رکھا جائے؟ یہ ایک پریشان کُن مُعامَلہ ہے ۔ آئیے اس بارے میں فتاویٰ رَضَوِیَّہ شریف سے رہنمائی لیتے ہیں۔
چُنانچہ اعلیٰ حضرت،امامِ اَہلسنت مولانا شاہ امام احمدرضا خانرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں کیے گئے سوال کا خُلاصہ یہ ہےکہ کیافرماتے ہیں، عُلمائے دِین اِس مسئلے میں کہ زید کے ایک تایا اور ایک بہن ہے، زیداپنے تایا اور بہن دونوں سے ملتاہے ، لیکن اب زید کی بہن اور تایا کے درمیان سخت اَن بَن ہوگئی ہےاور زید کی بہن اپنے سگے بھائی زید سے یہ کہتی ہے کہ تم اگر اپنے تایا سے مِلوگے تومیں تم سے نہیں مِلوں گی ۔اِتفاقاً زید کی شادی کا وَقْت قریب آگیااور زید کی بہن کا کہنا ہے: اگرتایا کو شادی میں بُلایا تو میں اس میں شرکت نہیں کروں گی، اس صُورت میں تایا کی دل آزاری کا اندیشہ ہے اور اگر تایا کو بُلائے تو بہن کو صَدمہ پہنچے گا۔ایسی حالت میں زید کو کیاکرناچاہئے؟ کیا زید اپنی بہن کاکہنا مان کرتایاکو شادی میں نہ بُلائے یا اپنی بہن کو چھوڑکر اپنے تایا کو بُلائے؟
سرکارِاعلیٰ
حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ اس کاجواب دیتے ہوئے اِرْشادفرماتے
ہیں:بہن اورچچا دونوں ذِی
رِحم مَحْرَم ہیں، کسی سے قَطعِ رِحم کرنا جائزنہیں۔ زید کو چاہیے کہ اپنی بہن کو
جس طرح ممکن ہو راضی کرے ،اگرچہ یُوں کہ پوشیدہ طور پر اپنے چچا کو شادی
میں شریک ہونے کی دعوت دے اور اپنی بہن سے کہہ دے کہ مجھے ہرطرح تیری مَرضی منظور
ہے، نہ اُن کوبُلاؤں گا نہ شریک کروں گا ،البتہ اِتنا تجھ