Book Name:Silah Rehmi

ساتھ بہت سی برکتیں ہیں ۔جبکہ رشتہ توڑنے میںاللہعَزَّ  وَجَلَّ  کی ناراضی اورآخرت کی بربادی کے ساتھ ساتھ دُنْیوی نُقصانات بھی بہت زِیادہ ہیں ۔عُموماًرِشْتہ داری ختم ہونے کاسبب حُسنِ ظن کی کمی اور بدگمانی کی کثرت بھی ہے۔ افسوس! ہمارے مُعاشَرےمیں شکوک وشُبہات کی بُنیاد پرایک دوسر ے کے بارے میں بدگمانی کرناعام ہے ، مثلاً ہم نے اپنےکسی عزیزکو کسی تقریب میں شرکت کی دعوت دی، لیکن وہ کسی  تقریب میں شرکت نہیں کر پائے،تو اب اس کاٹھیک ٹھاک نوٹِس لیا جاتا،خُوب تنقیدیں اورغیبتیں کی جاتی ہیں اور یہ ذِہْن بنا لیا جاتا ہے کہ چونکہ اس نے ہماری تقریب کا ”بائیکاٹ“ کیا ہے، اس لیے ہم بھی اس کی کسی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے اوریُوں محض بدگُمانی کی بُنیاد پر دو(2) خاندانوں میں اَن بَن ہوجاتی ہے اور وَقْت گُزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دُوریاں اس قدر پُخْتَہ ہو جاتی ہیں کہ برسہابرس تک فَرِیْقَیْن ایک دوسرے سے جُدا رہتے ہیں۔ ”حالانکہ کوئی ہمارے یہا ں  شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں اچّھا گمان  رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں،مَثَلًا وہ نہ آنے والا بیمار ہو گیا ہو گا،بُھول گیا ہو گا،ضَروری کام آپڑ اہو گا،یا کوئی سخت مجبوری ہو گی، جس کی وضاحت اس کے لئے دُشوار ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔وہ اپنی غیر حاضِری کا سبب بتائے یا نہ بتائے،ہمیں حُسنِ ظن رکھ کر ثواب  کمانے اور جنّت میں جانے کا سامان کرتے رہنا چاہیے۔

حُسنِ ظن کی فضیلت

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَۃِ یعنی حُسنِ ظَن عُمدہ عِبادت ہے۔(ابوداوٗد ج۴ ص۳۸۷ حدیث ۴۹۹۳)مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مُفْتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :مُسلمانوں سے اچّھا گُمان کرنا،ان پر بدگُمانی نہ کرنا یہ بھی اچّھی عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔   (مِراٰۃُ المَناجِیح ج۶ ص ۶۲۱)

اوربِالفرض  اگر ہماراکوئی رشتے دار سُستی کے سبب یا کسی بھی وجہ سے یاجان بُوجھ کر ہمارے یہا ں