Book Name:Silah Rehmi

کہا کرتے ہیں کہ جو رشتے دار ہم سے تَعَلُّق رکھے گا، ہم بھی اُس سے تَعَلُّق رکھیں گے اور جو ہم سے کٹ جائے گا،ہم بھی اُس سے کٹ جائیں گے،یہ کہنا اور یہ طریقہ بھی اِسلام کے خِلاف ہے۔ (مزید فرماتے ہیں:)رشتے داروں کے ساتھ تَعَلُّق کاٹ دینے کی ایک ہی صُورت جائز ہے اور وہ یہ کہ شریعت کے مُعامَلے میں تَعَلُّق کاٹ دیا جائے،مثلاً کوئی رشتے داراگرچہ کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو،اگر وہ مُرْتَد (یعنی اسلام سے پھرجائے)یا گمراہ وبددِین ہوجائے تو پھر اُس سے تَعَلُّق کاٹ لینا واجب ہےیا کوئی رشتہ دار کسی گُناہِ کبیرہ میں گرِفتار ہے اور منع کرنے پر بھی باز نہیں آتابلکہ اپنے گُناہِ کبیرہ پرضِدکرکے اَڑا ہواہے تواُس سے بھی قطعِ تَعَلُّق کرلیناضروری ہے ،کیونکہ اُس کے ساتھ تَعَلُّق رکھنا اور تَعاوُن کرنا گویا اُس کے گُناہِ کبیرہ میں شرکت کرنا ہے اور یہ ہر گز ہرگز جائز نہیں ۔(بہشت کی کنجیاں،ص۱۹۷)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صلۂ رحمی کرنا ،ایک مجبوری:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!رشتے داروں کے حُقُوق کی اَدائیگی اور اُن سے صِلَۂ رِحمی کرنا، یقیناً باعثِ سعادت ہے، لیکن ہمیں اِس کا کامل فائدہ اُسی صُورت میں نصیب ہوگا کہ جب ہم دل سے اِس نیکی کو سَراَنجام دیں گے۔افسوس! اب رشتہ داری تو صِرْف نام کی رہ گئی ہے اور  آج کل صِلۂ رِحمی کرنا گویا کہ ایک مجبوری بن چکی ہے،بعض لوگ ظاہراًتو بڑے مِلَنْسَار لگتے ہیں،لیکن اُن کا سینہ مسلمانوں کے کینے سے بھرا ہوتا ہے،بعض نادان نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر ذاتی وُجوہات کی بِنا پر یا خواہ مخواہ رشتے داروں سے  قَطعِ تَعَلُّق کرلیتے ہیں اور دوستوں پر تو دل کھول کر خرچ کرتے ہیں لیکن آہ! اپنے والدَین،بہن بھائیوں،چچاؤں،بھتیجوں اور بھانجوں وغیرہ کے حُقوق سے بالکل ہی غافل ہوتے ہیں، شادی وغیرہ کی تقاریب  ہوں یا مُبارک اَیّام کی آمد،بُزرگوں کے اِیصالِ ثواب کی نذر ونیاز  کا اِہْتِمام ہو یا اجتماعِ ذکر و نعت وغیرہ،بعضوں کا یہ معمول ہوتا ہے کہ وہ اِن میں صرف  اُنہی رشتے داروں