Book Name:Silah Rehmi
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! اَمِیْرُالْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیّدُنا صِدّیقِ اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےاپنے خالہ زاد بھائی(یعنی اپنے کزن)حضرت سَیِّدُنا مِسۡطَح بن اُثَاثَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے قطع تَعلُّقی(یعنی تعلقات ختم) کرنے کی قَسَم کھالی تھی مگر جب یہ آیتِ مُبارَکہ نازِل ہوئی توآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےرِضائے الٰہی کی خاطِر حضرت سَیِّدُنامِسۡطَح بن اُثَاثَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مُعاف فرمادیا۔غور کیجئے!اگر ایسامُعامَلہ ہمارے ساتھ پیش آجائے تو ہم ایسے شخص سے بات چیت، مَیْل جَول، حتّٰی کہ سَلام دُعا کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ہم تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رِشْتہ داروں سے تَعلُّقات توڑدیتے ،حُسنِ سُلُوک یعنی اچھے سلوک سے ہاتھ کھینچ لیتے اوربات چیت خَتْم کر دیتے ہیں ۔ہم سبھی کو چاہئے کہ غور کریں کہ خاندان میں کس کس سے اَن بَن ہے جب معلوم ہو جائے تو اب اگر شَرعی عذر نہ ہو تو فوراً ناراض رشتے داروں سے’’ صُلح و صفائی‘‘کی ترکیب شُروع کر دیں ۔ اگر جُھکنا بھی پڑے تو بے شک رِضائے الٰہی کیلئے جُھک جائیں۔اِنْ شَآءَاللہعَزَّ وَجَلَّسر بُلندی پائیں گے۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ یعنی جواللہعَزَّ وَجَلَّ کیلئے عاجِزی کرتا ہے اللہعَزَّ وَجَلَّ اُسے بُلندی عطا فرماتا ہے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۲۷۶ حدیث۸۱۴۰)اپنے گھروں اور مُعاشَرے کو اَمن کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنے قَرابت داروں سے حُسنِ سُلُوک اور صلہ ٔرحمی کی عادت بنائیے اور جس قدرممکن ہوقطع تَعلّقی سے بچنے کی کوشش کیجئےکیونکہ دیگر گُناہوں کا وَبال تو صرف گُناہ کرنے والے پرہی آتاہے مگر رِشْتہ داری توڑنے کی نحوست کے سبب پُوری قوم رَحْمتِ الٰہی سےمحروم ہوجاتی ہے۔
اللہعَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں رِشْتہ داروں، یتیموں،بے سہاروں کے ساتھ صِلۂ رحمی کرنے کا حکم دیاہے چُنانچہ پارہ 21 سُوْرَۃُ الرُّوْم کی آیت نمبر38 میں ارشاد ہوتاہے :
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ
تَرْجَمَۂ کنزالایمان: تو رشتہ دار کو اُس کا حق دو