Silah Rehmi

Book Name:Silah Rehmi

سے چاہتاہوں کہ وہ اگر اپنے آپ آجائیں تو اِس پرمجھ سے ناراض نہ ہونا، کیونکہ وہ تیرے اور میرے دونوں کے باپ کی جگہ ہیں،اجنبی آدَمی (بھی کسی تقریب میں)بے بُلائے آجائیں تو اُن کو نکالنا بد تمیزی ہے نہ کہ باپ کو(کہ تایا باپ ہی کے قائم مقام ہوتا ہے)،غَرَض جھوٹے سچے فقرے بتاکر دونوں کو راضی کرے کہ اِس پر بھی ثواب پائے گا۔زید اپنی بہن کو یہ کلمہ”میں اُن کو نہ بُلاؤں گا“ کہنے سےمُراد یہ رکھے کہ میں خُود اُن کو بُلانے نہ جاؤں گا، اگرچہ آدَمی یاخط بھیج دوں گا،(اور تایا کے)”آپ چلے آنے“سے یہ مُراد لے کہ وہ اپنے پاؤں سے چلے آئیں نہ یہ کہ میں اُٹھاکر لاؤں، دو رُخی بات کہے۔ جھوٹے سچے ”فقرے“ سے مُرادجس کاظاہرجھوٹ اورمُرادی معنیٰ سچ(جسے عربی میں ”توریہ“ کہتے ہیں)۔ حدیث میں فرمایا:اِنَّ فِي الْمَعَارِيضِ لَمَنْدُوحَةً  عَنِ الْكَذِبِ۔یعنی  بیشک اِشاروں میں گُفتگوکرنےمیں جُھوٹ سےآزادی ہے۔ (السنن الکبریٰ، کتاب الشہادات، باب المعاریض فیہامندوحۃ۔۔۔الخ، ۱۰/۳۳۶، حدیث: ۲۰۸۴۳،ازفتاویٰ رضویہ، ۲۴/۳۴۴،ملخصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا کہ سرکارِاعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے سُوال کرنے والے کو ضرورتِ شرعی کی بنا پر تَورِیہ کی ترغیب اِرشاد فرمائی، شرعی عُذر کی بنا پر تَوریہ کرنے سے انسان جُھوٹ سے بچ جاتا ہے، مگر یادرہے! توریہ کرنے کی مخصوص صُورتیں ہیں،بِلا ضرورت توریہ کرنا شرعاًناجائزہے جیسا کہصَدْرُالشَّریعہ،بَدْرُالطَّریقہ مُفتی محمدامجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:توریہ یعنی لفظ کے جوظاہرمعنیٰ ہیں وہ غلط ہیں، مگرکہنے والےنے دُوسرے معنیٰ مُرادلئے جوصحیح ہیں،ایساکرنابِلاحاجت جائزنہیں اورحاجت ہوتوجائزہے۔تَوریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کوکھانے کے لئے بُلایاوہ کہتاہے”میں نے کھاناکھالیا“اِس کے ظاہرمعنیٰ یہ ہیں کہ اِس وَقْت کاکھاناکھالیاہے، مگروہ یہ مُراد لیتاہے کہ کل کھایاہے یہ بھی جُھوٹ میں داخل ہے(اِس لئے کہ یہا ں  تَوریہ کرنا جائز نہ تھا)۔