حضرت ابو جابرعبد اللہ بن عَمرو بن حرام رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت ابوجابر عبداللہ بن عمرو بن حرام

*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023ء

ایک مرتبہ ایک صحابیِ رسول نے خَزِیْرَہ  ( یعنی آٹے اور گوشت سے تیار ایک قسم کا کھانا )  بنوایا پھر اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ اسے بارگاہِ رسالت میں پیش کردو ، صاحب زادے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : یہ کیا ہے ، کیا یہ گوشت ہے ؟ عرض کی : نہیں !  یہ خزیرہ ہے والد محترم نے اسے آپ کی بارگاہ میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا ۔ پھر بیٹے والد محترم کے پاس پہنچے اور جو کلمات زبان رسالت سے ادا ہوئے تھے وہ ان کو بتادئیے ، یہ سن کر وہ صحابی رسول کہنے لگے : ہوسکتا ہے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گوشت کھانا چاہتے ہوں ، پھراپنے ایک پالتو جانور کو ذبح کیا اس کی کھال اتاری اور اسے بھوننے کا حکم دیا پھر بیٹے کو حکم دیا کہ اسے بارگاہِ رسالت میں پیش کردو ، صاحب زادے اسے لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور پوچھنے پر ساری بات بتادی : حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک ہماری طرف سے انصار کو بالخصوص عبد اللہ بن عَمرو اور سعد بن عُبادہ کو بہترین بدلہ دے۔ )[1](

پیارے اسلامی بھائیو !  پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں یہ تحفہ پیش کرنے والے صحابیِ رسول حضرت سیدنا ابوجابر عبدُ اللہ بن عَمرو بن حرام رضی اللہ عنہ تھے۔

حلیہ اورفضائل آپ کا رنگ سرخ تھا۔)[2](آپ کا شمار ان 70 خوش نصیب صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے مکہ مکرمہ کی گھاٹی میں سرورِ کائنات کے دستِ اقدس پربیعت کی سعادت پائی ، آپ کو 12 نُقَباء  ( یعنی قوم کے نمائندوں اور سرداروں  ) میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ، آپ بدری صحابہ میں سے ہیں۔)[3](

قبولِ اسلام کے موقع پر جوش و خروش مکۂ مکرمہ کی گھاٹی میں بیعت کے موقع پر جب سب خاموش ہوگئے تو آپ نے کہنا شروع کیا : اللہ کی قسم !  ہم جنگجو ہیں ہم نے جنگوں میں پرورش پائی ہے ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں ہم جنگ میں اپنے بڑوں کے وارث ہیں ، ہم تیر پھینکتے ہیں وہ ختم ہوجاتےہیں تو نیزوں سے لڑتےہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں تو تلوار لے کردشمن پرحملہ آور ہوتے ہیں یا تو ہم مرتے ہیں یا دشمن کو موت سے ہمکنار کردیتے ہیں۔)[4](

ایک خواب غزوۂ اُحُد سے پہلے آپ نے خواب میں  ( غزوۂ بدر کے )  شہید حضرت مُبشّر بن عبد منذر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو وہ کہنے لگے : تم ہمارے پاس آنے والےہو۔ آپ نے پوچھا : تم کہاں ہو ؟ کہا : جنت میں ہم جہاں چاہتے ہیں سیر کرتے ہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا تم غزوۂ بدر میں شہید نہیں ہوگئے تھے ؟ جواب دیا : کیوں نہیں !  ہم تو شہید ہیں ، بیدار ہونے کے بعد آپ نے بارگاہِ رسالت میں یہ خواب بیان کیا تو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ابو جابر !  یہی شہادت ہے۔)[5](

غزوۂ احد کے پہلے شہید غزوۂ اُحُد کے موقع پر آپ نے اپنے بیٹے حضرت جابر کو رات میں بُلاکر فرمایا : میرا خیال ہے کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں سب سے پہلا شہید میں ہوں۔ میرے نزدیک رسولُ اللہ کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو ، مجھ پر قرض ہے اسے ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھائی کرنا۔)[6](

شہادت غزوۂ احد میں سن 3 ہجری 15 شوال کو آپ نے تاجِ شہادت اپنے سر پر سجایا۔)[7](حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے دیکھاکہ صبح سب سے پہلے شہید میرے والد تھے۔)[8](شہادت کےبعد دشمنوں نے آپ کے ناک اور کان کاٹ دئیے تھے لہٰذا  ( جنگ کے بعد )  آپ کی نعش مبارکہ کو چادر میں ڈھانپ کر لایا گیا ، بیٹے حضرت جابر نے چادر ہٹانی چاہی  ( اورآخری دیدار کرنا چاہا )  تو لوگوں نے روک دیا ، بیٹے نے پھر دوبارہ چادر ہٹانے کی کوشش کی تو لوگوں نے پھر روک دیا اس کے بعد نبیِّ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنازے کو اٹھانے کا حکم دیا تو آپ کی بہن کے رونے کی آواز آنےلگی ، یہ دیکھ کر نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : یہ کیوں رو رہی ہے ؟ جنازہ اٹھانے تک فرشتوں نے جنازے پر اپنے پروں سے مسلسل سایہ کئے رکھا ،)[9](تدفین کا حکم دیتےہوئے ارشاد فرمایا : عمرو بن جَموح اور عبدُ اللہ بن عَمرو بن حرام کو دیکھو ، یہ دونوں دنیا میں بھی ایک خاص تعلق رکھتے تھے لہٰذا انہیں ایک ہی قبر میں دفن کردو۔ )[10](

اولاد آپ نے اپنے پیچھے حضرت جابر کے علاوہ سات یا نو بیٹیاں چھوڑی تھیں۔)[11](

اللہ کریم کی بارگاہ میں مقام ایک مرتبہ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جابر سے فرمایا : اے جابر !  میں تمہیں غمگین اور رنجیدہ پاتا ہوں ، عرض کی : میرے والد شہید ہوگئے اور انہوں نے اپنے پیچھے ایک کنبہ اور قرضہ چھوڑا ہے ، سید دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سناؤں ؟ عرض کی : کیوں نہیں !  ارشاد فرمایا : اللہ کریم نے تمہارے والد کو زندگی عطا کرکے اس طرح کلام کیاکہ اس کے اور اللہ پاک کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ تھا ، فرمایا : اے میرے بندے !  اپنی چاہت مجھ سے بیان کر میں تجھے عطا کروں گا۔ ( تمہارے والد نے )  عرض کی : اے ربّ !  مجھے دنیا میں واپس بھیج تاکہ میں تیری رضا کی خاطر شہید کر دیا جاؤں۔ اللہ پاک نے فرمایا : یہ میں پہلے مقرر کرچکا ہوں کہ یہاں سے کوئی واپس نہیں جائے گا۔)[12](

قرضہ کیسے ادا ہوا ؟ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ !  اور ہر قسم کی کھجوروں  ( کی ڈھیری )  کو علیحدہ رکھنا ، حضرت جابر نے ایسا ہی کیا ، رسولِ کریم تشریف لائے اور ان میں سے عمدہ کھجوروں کے پاس  ( سب ڈھیریوں کے )  بیچ میں بیٹھ گئے پھر فرمایا : لوگوں کو ناپ کر دو ، حضرت جابر ناپ ناپ کر لوگوں کو کھجوریں دیتے رہے یہاں تک کہ آپ کا سارا قرضہ ادا ہوگیا اور حضرت جابر کی کھجوریں ویسی کی ویسی رہیں گویا کہ ایک بھی کم نہ ہوئی۔)[13](

قبر سے تلاوت کی آواز حضرت سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میرا کچھ مال  ( مدینے کے قریب جگہ ) غابہ میں تھا ، وہاں رات ہوگئی تو میں نے سوچا : اگر گھوڑے پر سوار ہوکر گھر پہنچ جاؤں تو زیادہ اچھا ہے لہٰذا سوار ہوا اور چل پڑا شہدائے احد کی قبروں کے قریب پہنچا تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام کی قبر سے تلاوتِ قراٰن کی آواز سنی تو اس کے پاس ٹھہر گیا ، میں نے اس سے بڑھ کر بہترین قراءت نہیں سنی تھی۔)[14](

46 سال بعد قبر کشائی حضرت جابر فرماتے ہیں : 46 سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ایک نہر جاری کی گئی تو وُرَثاء کو شہدائے اُحد کے مقدس جسم وہاں سے منتقل کرنے کا کہا گیا ، جب شہیدوں کے مقدس جسموں کو قبروں سے نکالا گیا تو وہ نم ہوچکے تھے اور اعضاء  ( زندہ انسان کی طرح )  ترو تازہ تھے ، قبر میں میرے والد یوں معلوم ہوتے تھے جیسے سو رہے ہوں جس چادر میں دفن کئے گئے تھے وہ پہلے جیسے تھی اور ( چادر چھوٹی ہونے کی وجہ سے )  جو گھاس ان کے قدموں پر ڈالی گئی تھی وہ ابھی تک ویسی ہی تھی۔ وہاں موجود لوگوں کا بیان تھا کہ حضرت عبداللہ بن عَمْرو بن حرام نے اپنا ہاتھ اپنے چہرے پر موجود زخم پر رکھا ہوا تھا ہاتھ زخم سے ہٹایا گیا تو خون بہنے لگا ، ہاتھ دوبارہ اسی جگہ رکھا تو خون بہنا بند ہوگیا  )[15](  اور وہاں شہیدوں کی قبروں سے مشک کی خوشبوکی مثل لپٹیں آرہی تھیں۔)[16](

اللہ  پاک  ہمیں صحابہ کرام  سے محبت کرنے والا ، ان  کا ادب کرنے والا اور ان کی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] الاحاد و الامثانی ، 4 / 70 ، حدیث : 2020-مسند ابی یعلیٰ ، 2 / 296 ، حدیث : 2075

[2] مغازی للواقدی ، ص267

[3] الاعلام للزرکلی ، 4 / 111

[4] صفۃ الصفوۃ ، 1 / 263

[5] مستدرک ، 4 / 211 ، حدیث : 4968

[6] بخاری ، 1 / 454 ، حدیث : 1351 مختصراً 4681

[7] الاعلام للزرکلی ، 4 / 111

[8] بخاری ، 1 / 454 ، حدیث : 1351

[9] مسلم ، ص 1029 ، حدیث : 6354

[10] سیرت ابن ہشام ، ص 339

[11] بخاری ، 3 / 517 ، حدیث : 5367

[12] ترمذی ، 5 / 12 ، حدیث : 3021 مختصراً

[13] بخاری ، 2 / 26 ، حدیث : 2127مختصراً

[14] شرف المصطفےٰ ، 2 / 476 ، حدیث : 675-خصائص الکبریٰ ، 1 / 364

[15] سبل الہدیٰ والرشاد ، 4 / 252

[16] سیرت حلبیہ ، 2 / 340


Share

Articles

Comments


Security Code