مجرم بلائے آئے ہیں

تفسیر قراٰنِ کریم

مجرم بلائے آئے ہیں

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی2023

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :  ( وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ( ۶۴ )  ) ترجمۂ کنزالعرفان : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اے حبیب ! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول  ( بھی )  ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا ، مہربان پاتے۔ ( پ 5 ، النسآء : 64 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : یہ آیت گناہ گاروں کا سہارا ، خطاکاروں کی امید ، مغفرت کے طلب گاروں کے لیے مژدہِ جاں فِزا اور مایوسوں کے لیے رحمت کی ٹھنڈی ہوا ہے۔ آیت میں بندگانِ خدا کو سرورِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقۂ تعلیم فرمایا کہ اگروہ ارتکابِ مَعاصی کی صورت میں اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں ، تو اے حبیب !  ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمہاری خدمت میں آجائیں کہ درِ رسول کی حاضری ، بارگاہِ خداوندی میں حاضری ہے۔ گناہ گار یہاں آئیں اور خدائے رحمٰن سے بخشش پانے کے لیے رحمتِ دو جہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حضور سفارش کی درخواست کریں اور رؤوف ورحیم نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن کے لیے شفاعت فرمادیں ، تو ضرور اُن لوگوں کو رحمت و مغفرت سے نوازدیا جائے گا اور طیب و طاہر ، مُزَکّٰی و مُطَہَّر نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ تطہیر میں آکر یہ خود بھی گناہوں سے پاک ہو جائیں گے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ تعالیٰ اللہ علیہ نے اس آیت کی تشریح میں بہت خوب صورت نکتہ بیان فرمایا ، چنانچہ لکھا : بندوں کو حکم ہے کہ اُن ( نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و اِستغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے ، اُس کا علم ، اُس کا سَمْع ( سننا ) ، اُس کا شُہُود ( دیکھنا )  سب جگہ ایک سا ہے ، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔۔۔حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عالَم ِحیاتِ ظاہری میں حُضُور ( یعنی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہونا )  ظاہر تھا ، اب حضورِمزارِ پُر اَنْوار  ( یعنی سنہری جالیوں کی قریب پیش ہوجانا )  ہے اور جہاں یہ بھی میسر نہ ہو ، تو دل سے حضور پر نور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف توجہ ، حضور سے توسُّل ، فریاد ، اِستغاثہ ، طلبِ شفاعت  ( کی جائے۔ )  

( فتاویٰ رضویہ ، 15 / 654 )

حضور شفیعِ اُمّت ، سراپا رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیات مبارکہ میں بذاتِ خود بارگاہ میں حاضر ہو کر اور وصالِ ظاہری کے بعد مزارِ پُر بہار ، فائز الانوار پر حاضری دے کر گناہوں کی معافی ، مغفرت ونجات اور مشکلات کے خاتمے کے لیے عرض ورُجوع و اِلْتِجا کا سلسلہ صحابہ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے آج تک امت مسلمہ میں دائمی معمول کے طور پر جاری ہے۔چنانچہ صحابۂ کرام اور سلف صالحین رضوانُ اللہ علیہم اجمعین کے واقعات ملاحظہ کریں۔

 پہلا واقعہ : حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : میں نے ایک ایسابستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں ، جب رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے ، میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی : یا رسول اللہ ! ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اُس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ( پھر وہ تصویر والا بستر ہٹا دیا گیا )   ( بخاری ، 2 / 21 ، حدیث : 2105 )

دوسرا واقعہ : حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابہ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے ، جمع ہوکر جبر و قدر میں بحث کرنے لگے تو جبرائیل امین علیہ السّلام نے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر صورتِ حال بیان کی۔ یہ سُن کر حضور پر نور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ جلال و غضب سے آپ کا چہرہ مبارک ایسا سرخ تھا ، جیسے سرخ انار رخسار مبارک پر نچوڑدیا گیا ہو۔ صحابۂ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور انور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس کیفیت کو دیکھ کر کانپتےہوئے عرض کرنے لگے تُبْنَااِلَی اللہ وَرَسُوْلِہٖ “ ہم نے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے دربار میں توبہ کی۔  ( معجم کبیر ، 2 / 95 ، حدیث : 1423ملتقطا )

بعدِ وصال بارگاہِ نبوی میں حاضری :

 حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ صرف آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری حیات ِ مبارکہ میں نہ تھا ، بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال ِ مبارک کے بعد بھی یہ عرض و معروض باقی رہی اور آج تک ساری امت میں چلتی آرہی ہے۔

تیسرا واقعہ : محدثین کی ایک بہت بڑی تعداد نے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں قحط پڑ گیا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث المُزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلطانِ دو جہاں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبر انور پر حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ !  ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کر دیجیے ، کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ رسول کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں ان سے فرمایا : تم عمر  ( فاروق )  کے پاس جا کر میرا سَلام کہو اور بشارت دے دو کہ بارش ہو گی۔

  ( مصنف لابن ابی شیبہ ، 17 / 63 ، حدیث : 32665 )

چوتھا واقعہ : محدثین و مفسرین و شارحین کی درجنوں سے زیادہ تعداد نے یہ واقعہ نقل فرمایا ہے کہ حضور سید المرسلین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات شریف کے بعد ایک اَعرابی روضہ اقدس پر حاضر ہوا اور روضہ انور کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا : یارسول اللہ !  ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  جو آپ نے فرمایا ، ہم نے سنا اور جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہوا ، اس میں یہ آیت بھی ہے ” وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا ( اس آیت کے سہارے میں عرض کرتاہوں کہ )  میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کی بارگاہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا ہوں تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے۔اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تجھے بخشش دیا گیا۔  ( تفسیر نسفی ، پ5 ، النسآء ، تحت الآیۃ : 64 ، ص 236 )

الغرض یہ آیت ِ مبارکہ سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظیم شان بیان کرتی ہے۔ اسی آیت پر اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے :

مجرم بلائے آئے ہیں جَاءُوْکَ ہے گواہ

پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کو تِرا آستاں بتایا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code