ٹیکس بچانے کے لئے کم بل بنانا کیسا؟

ٹیکس بچانے کے لئے کم بل بنانا کیسا؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خریدار نے ہم سے جتنے کی چیز خریدی ہے وہ اس سے کم کا بل بنواتا ہے تاکہ اس کو زیادہ ٹیکس نہ دینا پڑے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ اس طرح کم بل بنا کر دینا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: بل پر جو رقم آپ لکھ رہے ہیں وہ خلافِ واقع ہے مثلاً ایک ڈیل ہوئی دس ہزار روپے کی اور آپ نے لکھی پانچ ہزار روپے کی ،تو یہاں جھوٹ لکھنا پایا جارہا ہے جو کہ بلا اجازت شرعی گناہ کا کام ہے ۔ لہٰذا جھوٹ لکھنے اور اس طرح غیر قانونی کام کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دوسری شادی کی صورت میں جرمانے کی شرط لگانا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نکاح فارم میں یہ شرط لگانا کیسا ہے کہ اگر شوہر نے طلاق دی یا دوسری شادی کی تو دو لاکھ روپے کی رقم دینی پڑے گی؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: یہ صورت تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانے میں آتی ہے یوں لکھوانا جائز نہیں ہے۔ البتہ اس طرح کی رقم مہر کے طور پر لکھوائی جاسکتی ہے ، نکاح نامہ میں مہر کا کالم موجود ہوتا ہے اور مہر ہمارے یہاں دوطرح سے لکھا جاتا ہے ایک یہ ہوتا ہے کہ فوری دیا جائے اور ایک وہ ہوتاہے جو فوری نہیں دیا جاتا بلکہ طلاق ہوجائے یا شوہر کی وفات ہوجائے تو ترکے سے دیاجاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں سے کسی بھی قسم میں مہر کےطور پر لکھوایا جا سکتا ہے کہ شوہر نے بیوی کے لئے اتنا مہر مقرر کیا ہے مہر چاہے کتنا ہی مقرر کرلیں کوئی منع نہیں ہے قرآنِ پاک کی واضح آیت موجود ہےلیکن الگ سے لکھوانا کہ اگر طلاق دے دی تو اتنے پیسے اور دینے پڑیں گے یہ جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پرندوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا پرندوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہے مثلا ایک اچھی نسل کے طوطے کے بدلے میں زیادہ تعداد میں کبوتر دینا جائز ہےیا نہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: ایک اچھی نسل کے طوطے یا کسی اور پرندے کو دوسرے کئی پرندوں کے بدلے میں بیچنا جائز ہے کیونکہ پرندوں کوناپ یا تول کر نہیں بلکہ تعداد کے اعتبار سے خریدا اور بیچا جاتا ہے اور عددی ہونے سے سود پائے جانے کی ایک علت ختم ہو جاتی ہے۔البتہ اگر ایک ہی جنس کے پرندوں کو کمی بیشی سے خریدا یا بیچا جائے تو ادھار کرنے کی اجازت نہیں۔

حضرت سیدناجابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :الحيوان اثنان بواحد لا يصلح نسيئا، ولا بأس به يدا بيدترجمہ : ایک جانور کو دو کے بدلے میں ادھار بیچنا جائز نہیں اور ہاتھوں ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں۔(ترمذی،ج3،ص19، حدیث:1242)

شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:” فإن الجنس عندنا يحرم النساء بانفراده“ ترجمہ : ہمارے نزدیک صرف جنس ایک ہونا بھی ادھار کو حرام کر دیتا ہے ۔(المبسوط للسرخسی،جز12،ج 6،ص143)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کمیشن ایجنٹ کا زائد قیمت پر چیز بیچنا

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمیشن ایجنٹ کمپنی ریٹ سے زیادہ قیمت پر چیز بیچ کر اضافی رقم خود رکھ سکتا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: شرعی قوانین کی رو سے بروکر ایک نمائندہ ہوتا ہے خود پارٹی نہیں ہوتا بلکہ دو پارٹیوں کو ملوارہا ہوتا ہے ۔سودا اگر زیادہ پیسوں میں ہوتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ مال بیچنے والے کو اسی قیمت سے آگاہ کرے جس قیمت میں مال بکا ہے اور پوری قیمت بیچنے والے کے حوالے کرے اصل قیمت میں سے خود رکھنا اور مالکان کو آگاہ نہ کرنا یہ حرام فعل ہے نہ ہی یہ اضافی رقم اس کیلئے حلال ہوگی۔یہ صرف اپنی مقررہ کمیشن کا حق دار ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

زیادہ ایڈوانس دے کر کرایہ کم کروانا کیسا؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک مکان کرایہ پر لینا چاہتا ہوں جس کا کرایہ عام طور پر پچیس ہزار روپے اور ایڈوانس پانچ لاکھ روپے ہوتا ہے لیکن مالک مکان نے مجھے یہ آفر کی ہے کہ اگر آپ مجھے بارہ لاکھ روپے ایڈوانس دے دو تو میں کرایہ کم کرکے پندرہ ہزار کردوں گا۔ کیا اس طرح زیادہ ایڈوانس دے کر کرایہ کم کروانا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں رائج ایڈوانس کے مقابلے میں زائد رقم اسی لئے لی گئی ہے کہ مالک مکان اس کرایہ دار کو بدلے میں فائدہ پہنچائےکہ اس سے کرایہ کم لیا جائے۔

رائج مقدار سے ہٹ کر لیا گیا زیادہ ایڈوانس بھی عام ایڈوانس کی طرح قرض ہے لیکن عام ایڈوانس کے مقاصد میں سب سے نمایاں پہلو سیکیورٹی کا ہوتا ہے جبکہ زائد ایڈوانس میں بدلہ یا معاوضہ دینا مقصود ہوتا ہے۔ زائد ایڈوانس لینے والا قرض پر نفع دیتے ہوئے عرف سے کم کرایہ وصول کرتا ہے یا بالکل ہی کرایہ نہیں لیتا۔ یہ سودی صورت ہے کہ قرض سے نفع اٹھانا پایا جارہا ہے۔ لہٰذا یہ طریقہ کارسودی معاملہ ہونے کی وجہ سے ناجائز وگناہ ہےکیونکہ ایڈوانس کی رقم پراپرٹی کے مالک پر قرض ہوتی ہے اور کرایہ دار قرض دے کر اس سے مالی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے جوکہ سودی فائدہ ہے لہٰذا جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭دار الافتاء اہلسنت نور العرفان ،کھارادر،باب المدینہ کراچی


Share

ٹیکس بچانے کے لئے کم بل بنانا کیسا؟

ایک دفعہ عید کے موقع پر اپنے چچازادبھائی کے ساتھ کپڑے خریدنے مارکیٹ جانا ہوا، ایک دوکان پر چچا زاد بھائی کو ایک ریڈی میڈ سوٹ پسند آیا جسے ہم نے کچھ بھاؤ تاؤ کے بعد خرید لیا، دوکاندار کا اخلاق، چہرے کی مسکراہٹ یہاں تک کہ چائے کی آفر کرنا ہمیں بہت پسند آیا، ہم نےیہ سوچ کر دوکان کا کارڈ بھی مانگ لیا کہ ابھی تو دیگر کزنز اور بھائیوں کے لئے بھی سوٹ خریدنے ہیں چلو ان کو بھی یہیں لے آئیں گے، بہرحال کارڈ لے کر ہم دوکان سے بلکہ یوں کہئے کہ مارکیٹ سے سیدھا گھر کی طرف چل دئیے، گھر پہنچ کر جلدی جلدی پیکنگ کھولی، موصوف نے کرتا نکال کر زیبِ تن کیا تو اس کی بناوٹ کو اپنے جسم کے سائز سے مختلف پایا، اہل خانہ میں سے بھی کسی نے رنگ اور کسی نے ڈھنگ پر اعتراض اٹھایا، طے یہ ہوا کہ اسے کل واپس یا تبدیل کروا لیا جائے، دوسری شام دوکاندار کی خوش اخلاقی کو ذہن میں اور سوٹ کا شاپنگ بیگ ہاتھ میں لئے دوکان پر پہنچے اور اپنا مقصد بیان کیا تو دوکاندار نے سخت لہجے میں یہ کہتے ہوئے منہ موڑ لیا کہ ’’ہم واپس یا تبدیل نہیں کرتے‘‘

حالانکہ وہاں کوئی ایسی تختی نہیں تھی جس پر یہ ”رکاوٹی“ جملہ لکھا ہو اور نہ کارڈ پرایساکچھ تحریر تھا۔ قصہ مختصر واپس تو کیا ہوتا البتہ بہت زیادہ تکرار اور اصرار کے بعد تبدیلی پر بات ختم ہوئی اور چچا زاد بھائی کو اس کے بدلے دل پر پتھر رکھتے ہوئے ایک سوٹ پسند کر نا ہی پڑا۔ اب میں دوکان سے باہر کھڑا تھا اور دائیں بائیں دیکھ کر اندازہ لگا رہا تھا کہ آئندہ کہیں غلطی سے بھی اس دوکان میں نہ آجاؤں۔ اس کے بعد مجھے بارہا اس مارکیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا بلکہ اپنے دوست احباب کو لے کر گیامگر اس دوکان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔

یہ میرے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ ہے، ہو سکتا ہے ایسا کوئی واقعہ آپ کے ساتھ بھی پیش آیا ہو۔ پھرنتیجہ تو بالکل واضح ہے۔ اس کے بر عکس اگر کوئی دوکاندار خوش اسلوبی سے ہمارا سامان واپس یا تبدیل کر دے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ دوبارہ اسی کے پاس جائیں اور دیگر جاننے والوں کو بھی اسی کے پاس جانے کا مشورہ دیں۔

تاجروں کے لئے مقام غور آپ کی دوکان پر لگی تختی (نوٹ:خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا) جسے آپ اپنے گمان میں کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں در اصل یہ کنجی نہیں بلکہ ایک رکاوٹ ہے جو کئی خریداروں کو آپ کی دوکان کے قریب نہیں آنے دیتی، آپ کا ”ناقابل واپسی“ کا بورڈ یا سامان پر چسپاں کیا ہوا اسٹیکر آپ کے سامان کو ہی نہیں بلکہ آپ کے خریدار کو بھی ناقابل واپسی بنا دیتا ہے، تاجر حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی پبلسٹی اور شہرت کا ایک اہم ذریعہ ان کا خریدار ہوتا ہے، جب آپ ایک خریدار کا سامان واپس یا تبدیل نہیں کریں گے تو کیا وہ کبھی دوبارہ آپ کے پاس آئے گایا کسی اور کو آپ کے پاس آنے کا مشورہ دے گا؟؟؟ہرگز نہیں، الٹا جان پہچان والوں سے کہے گا: فلاں دوکان یا فلاں اسٹور پر مت جانا، یوں آپ کی پبلسٹی (Publicity)تو ہو گی مگر مثبت(Positive) نہیں بلکہ منفی (Negative)۔ عالمی (Global)سطح پر کامیاب تاجروں کو دیکھیں یا مشہور شاپنگ مالز یا ان اسٹوروں کو دیکھیں جن کے آگے لوگ لائنیں لگا کر کھڑے ہوتے ہیں ان کی کامیابی کا ایک راز ”خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل“ کرنا ہے۔

اسلامی روشن اصول اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، دینی معاملات کے ساتھ ساتھ اسلام دنیاوی معاملات میں بھی انسان کی بہترین راہنمائی کرتا ہے، تجارت کو اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے، خود ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی تجارت فرمائی اور آپ کے پیارے صحابہ بھی مشہور اور کامیاب تاجر رہے، ان کی تجارت کی خاص بات دیانتداری، سچائی اور اس سے بڑھ کر مسلمانوں کی خیرخواہی کے جذبہ سے لبریز تھی، کسی خریدار کا سامان رضامندی کے ساتھ واپس کرنا اور اس کو اس کی رقم لوٹا دینا اس کی دلجوئی اور خیرخواہی ہےشریعت مطہرہ میں اسے ”اِقَالہ“ کہا جاتا ہے، اس کا دینی اور اخروی فائدہ یہ ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان سے اقالہ کیا قیامت کے دن اللہکریم اس کی لغزشیں معاف فرما دے گا۔(ابن ماجہ،ج3،ص36، حدیث:2199)

بعض اوقات سامان واپس کرنا ضروری بھی ہو جاتا ہے خصوصاً جب اس طرح کی پیکنگ میں ہو کہ اسے خریدتے ہوئے کھول کر دیکھنا ممکن نہ ہو اور بعد میں اس میں کوئی عیب، کوئی کمی یا خرابی نکل آئے یا میڈیکل کی ادویات وغیرہ جو خریدار کی ضرورت سے بچ جائیں اور وہ ان کی رسید کے ساتھ آپ کو واپس دینا چاہے اور آپ انکار کر دیں تو ایسی صورت میں وہ سامان یا ادویات خریدار کے کس کام کے ؟ بتائیے خریدار بےچارے کا کس قدر نقصان ہوگا، جبکہ اس کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے آپ کے اسٹور سے خریداری کی تھی،کیا اب کبھی بھی وہ آپ کی دوکان یا اسٹور کا رخ کرے گا؟ رکئے!!!ذرا خود کو خریدار کی جگہ رکھ کر سوچئے۔۔۔!

اپنے کاروبار کو ایسے ترقی دیجئے آج ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلموں نے اسلامی اصولوں کو اپنا کر دنیا میں اپنی معیشت کو مضبوط کیا اور عالمی تجارتی منڈی پر قبضہ جما لیا ، حتّٰی کہ شاید ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو جو ان کی تیار کردہ کوئی نہ کوئی چیز استعمال نہ کرتا ہو، تجارت اور صنعت وحرفت میں دنیا مسلمانوں کی محتاج تھی مگر آج مسلمان غیروں کے محتاج ہیں، اس کی اصل وجہ اسلامی اصولوں سے ہٹ کر اپنے کمزور اذہان سے بنائے گئے ناقص اصول و قوانین ہیں، درج بالا ایک اسلامی تجارتی نکتے ”اقالہ“ کی طرف ہی دیکھ لیں صرف اس ایک نکتے سے انحراف کی صورت میں تجارت پر کس قدر گہرا اثر پڑتا ہے۔ آئیے اپنی تجارت، اپنے کاروبار کو پھیلائیے! ’’ناقابل واپسی “کی تختی نہ صرف دوکان بلکہ دل ودماغ سے بھی اتار دیجئے، بلکہ ”خریدا ہوا سامان واپس یا تبدیل ہو سکتا ہے“ کی تختی لگا دیجئے، اس کے سودمند نتائج آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ہاں! دھوکے بازوں سے بچنے کے لئے اپنے کارڈ پر جائز شرائط تحریر کر دیجئے مثلا: سامان استعمال نہ ہوا ہو، تبدیل کرواتے ہوئے اصل رسید ساتھ ضرور ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ دیکھئے گا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تجارت کے اس اسلامی طریقے کو اپنا کر آپ کو خسارہ نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہو گا، آپ کے خریدار بڑھیں گے تو آپ کی سیل بڑھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے خیر خواہی کی نیت بھی کر لیجئے، دنیا کا فائدہ تو ملے گا ہی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مسلمان کا دل خوش کرنے، اس کی حاجت پوری کرنے، اس کی خیر خواہی کرنے کا ثواب اورحدیث مبارکہ میں مذکور اخروی بشارت سے بھی سرفرازی نصیب ہو گی۔ اللہکریم سمجھنے اورعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ تراجم المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

ٹیکس بچانے کے لئے کم بل بنانا کیسا؟

کیا عدتِ وفات والی خاتون ایک ہی کمرے میں رہے گی؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عدتِ وفات گزار نے والی خاتون کیا گھر کے مختلف کمروں میں جاسکتی ہے؟ نیز کیا صحن میں بھی اس کا آنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ لوگوں سے سُنا ہے کہ ایک کمرے سے دوسرے میں بھی نہیں جاسکتی اور نہ ہی صحن میں آسکتی ہے اس بارے میں راہنمائی فرمائیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حکمِ شریعت یہ ہے کہ عدت گزارنے والی خاتون پر لازم ہے کہ شوہر کے اسی گھر میں عدت گزارے اور گھر تمام کا تمام ایک ہی مکان کہلاتا ہے لہٰذا اس کے مختلف کمرے، صحن یہ سب مل کر ایک ہی جگہ ہے تو ایسی خاتون اس گھر کے تمام کمروں میں بھی جاسکتی ہے اور صحن میں بھی پردے کی رعایت کرتے ہوئے بیٹھ سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں، ہاں البتہ اگر مکان کا کچھ حصہ شوہر کا ہو اور بقیہ حصہ کسی اور کی ملکیت ہے جیسے بعض اوقات ایک بڑا مکان بھائیوں کے درمیان مشترک ہوتا ہے لیکن پھر اسے باقاعدہ حد بندی کرکے تقسیم کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں عدت والی عورت کو شوہر والے حصے میں ہی جانے کی اجازت ہوگی بقیہ حصہ میں نہیں، اور کسی گھر میں متعدد پورشن ہوں جیسے فلیٹوں میں ہوتا ہے تو صرف شوہر والے پورشن پر ہی رہائش رکھ سکتی ہے، دوسری جگہ پر نہیں نیز اگر صحن بھی مشترکہ ہے جیسے کئی مکانوں پر مشتمل کوئی اپارٹمنٹ ہو جس کا صحن ایک ہی ہو تو اس مشترکہ صحن میں بھی آنے کی اجازت نہ ہوگی کیونکہ اب اس صحن کی حیثیت ایک راستے کی طرح ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

ابو حذیفہ شفیق رضاعطاری مدنی ابوصالح محمد قاسم القادری

عورت کا اپنے غیر محرم پیر و مرشد سے پردہ

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا جوان عورت بال، کلائیاں اور چہرہ کھول کر اپنے غیرمحرم پیر و مرشد کے سامنے آسکتی ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کا جس طرح نامحرم اجنبی شخص سے پردہ کرنا فرض ہے اسی طرح عورت کا اپنے نامحرم پیر و مرشد سے پردہ کرنا بھی فرض ہے کہ پردے کے معاملے میں دونوں کا حکم یکساں ہے، لہٰذا عورت کا بال یا کلائیاں کھول کر اپنے نامحرم پیر کے سامنے آنا حرام اور اسی طرح چہرہ کھول کر آنا بھی سخت منع ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب مُصَدِّق

عبدالرب شاکر عطاری مدنی ابو صالح محمد قاسم القادری


Share

Articles

Comments


Security Code