روضۂ رسول یا نعل پاک کی تصویر اور نقش بنانا اور ان کی تعظیم کرناکیسا؟

دارالافتاءاہلسنت

دارالافتاء اہلِ سنّت (دعوتِ اسلامی) مسلمانوں کی شرعی راہنمائی میں مصروفِ عمل ہے ، تحریری ، زبانی ، فون اور دیگر ذرائع سے ملک و بیرونِ ملک سے ہزارہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتے ہیں ، جن میں سے تین منتخب فتاویٰ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں۔

مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ ربیع الاول1442ھ

 (1)روضۂ رسول یا نعل پاک کی تصویر  اور نقش بنانا اور ان کی تعظیم کرنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حضور نبیِّ اکرم   صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم   کے روضۂ اقدس یا نعل پاک کی تصویر اور نقش بنانا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا کیسا ہے؟ اس بارے میں راہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حضور سیدِ عالم   صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم   کے روضہ اقدس یا نعل پاک کی تصویر اور نقش بنانا جائز ہے اور ان کی تعظیم و تکریم ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ روضہ اقدس اور نعلین شریفین کے نقش اور ان سے برکتوں کا حصول چودھویں صدی کی ایجاد نہیں ، بلکہ نقشِ روضہ اقدس کا ثبوت تابعین اور نقش نعل پاک کا ثبوت تبع تابعین سے ہے جب سے آج تک ہر دور اور طبقہ کے علماء و صلحا میں معمول اور رائج رہا ہے ، اور شرقاً غرباً ہر دور کے علمائے دین و ائمہ معتمدین ، اکابر دین انہیں بوسہ دینے ، آنکھوں سے لگانے ، سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے اور ان سے تبرک حاصل کرتے اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے آئے ہیں۔ اور اس کا انکار کرنا اور اس کے خلاف زبان درازی کرنا اس صدی کی بدعت ہے۔

چنانچہ حضرت علامہ شیخ محمدعبدالحق محدث دہلوی  علیہ الرَّحمہ  اپنی مشہور زمانہ کتاب “ مدارج النبوۃ “ میں نقش نعلین شریفین کے متعلق فرماتے ہیں : “ بعض علماء نے نعلین شریفین  کی تمثال و نقشے میں علیحدہ رسالے لکھے ہیں اور اس سے برکت و نفع اور فضل حاصل ہونا بیان کیا ہے اور مواہب میں اس کا تجربہ لکھا کہ مقام درد پر نعلین شریفین کا نقشہ رکھنے سے درد سے نجات ملتی ہے اور پاس رکھنے سے راہ میں لوٹ مار سے محافظت ہوجاتی ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے امان میں رہتا ہے اور حاسد کے شر و فساد سے محفوظ رہتا ہے مسافت طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے اس کی تعریف و مدح اور اس کے فضائل میں قصیدے لکھے گئے ہیں۔ “

(مدارج النبوۃ مترجم ، 1 / 577)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت  رحمۃ اللہ علیہ  اپنے رسالہ “ شفاء الوالہ فی صور الحبیب و مزارہ و نعالہ “ میں اس مسئلے پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : “ بالجملہ مزار اقدس کا نقشہ تابعین کرام اور نعل مبارک کی تصویر تبع تابعین اعلام سے ثابت اور جب سے آج تک ہر قرن و طبقہ کے علماء و صلحا میں معمول اور رائج ہمیشہ اکابر دین ان سے تبرک کرتے اور ان کی تکریم و تعظیم رکھتے آئے ہیں تو اب انھیں بدعت شنیعہ اور شرک و حرام نہ کہے گا مگر جاہل بیباک یا گمراہ بددین ، مریض القلب ناپاک والعیاذ با من مھاوی الھلاک (اللہ تعالیٰ کی پناہ ہلاکت و بربادی کے ٹھکانوں سے۔ ) آج کل کے کسی نو آموز قاصر ناقص فاتر کی بات ان اکابر ائمہ دین و اعاظم علماء معتمدین کے ارشادات عالیہ کے حضور کسی ذی عقل دیندار کے نزدیک کیا وقعت رکھتی ہے ، عاقل منصف کے لئے اسی قدر کافی ہے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 21 / 456)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : “ طبقۃ فطبقۃ شرقاً غرباً عجماً عرباً علمائے دین و ائمہ معتمدین نعل مطہر حضور سید البشر  علیہ افضل الصلٰوۃ واکمل السلام  کے نقشے کاغذوں پر بناتے کتابوں میں تحریر فرماتے آئے اور انہیں بوسہ دینے آنکھوں سے لگانے سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے اور دفع امراض و حصول اغراض میں اس سے توسل فرمایا کئے ، اور بفضلِ الٰہی عظیم و جلیل برکات و آثار اس سے پایا کئے۔ علامہ ابوالیمن ابن عساکر وشیخ ابواسحٰق ابراہیم بن محمد بن خلف سلمی وغیرہما علماء نے اس باب میں مستقل کتابیں تصنیف کیں “ ۔

(فتاویٰ رضویہ ، 21 / 413)

مزید ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : “ روضۂ منورہ حضور پُرنور سیدِ عالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  کی نقل صحیح بلاشبہہ معظماتِ دینیہ سے ہے اس کی تعظیم و تکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کا مقتضاءِ ایمان ہے۔ “

(فتاویٰ رضویہ ، 21 / 420)

مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ جلد21 ، صفحہ نمبر 425پر موجود امام اہلِ سنّت  رحمۃ اللہ علیہ  کا رسالہ “ شفاء الوالہ فی صور الحبیب و مزارہ و نعالہ “ کا مطالعہ کریں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)مسلمان مرد کتابیہ عورت سے نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ  عَزَّوَجَلَّ  میں خود مسلمان ہوں۔ نکاح کے حوالے سے میری راہنمائی فرمائیں کہ میرا دین مجھے اہلِ کتاب عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ سائل : محمد احسن خان (شاہ فیصل کالونی ، کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فی زمانہ کسی مسلمان مرد کا کتابیہ (یعنی عیسائیہ یا یہودیہ) عورت سے نکاح کرنا ، مکروہ تحریمی اور ناجائز و گناہ ہے ، کیونکہ  کتابیہ سے نکاح کی اجازت صرف اس صورت میں تھی کہ جب وہ ذمیہ ہو اور وہ بھی کراہت تنزیہی کےساتھ تھی ، اب فی زمانہ دنیا میں ذمی کفار نہیں ہیں ، بلکہ عمومی طور پر حربی کفار ہیں اور حربیہ کتابیہ سے نکاح مکروہ تحریمی ہے۔ واضح رہے کہ یہ احکام اُس وقت ہیں کہ جب وہ عورت واقعی کتابیہ ہو اور اگر صرف نام کی  کتابیہ (یہودیہ ، نصرانیہ) ہو اور حقیقۃً نیچری اور دہریہ مذہب رکھتی ہو ، جیسے آجکل کے بہت سے عیسائی کہلانے والوں  کا حقیقت میں  کوئی مذہب ہی نہیں  ہوتا بلکہ وہ دہریے ہوتے ہیں ،  تو ان سے بالکل نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)دانتوں میں کلپ لگوانا یا دانتوں کو گھسوانا کیسا؟

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ (1)دانت سیدھے کرنے کے لیے کلپ لگوانا کیسا ہے؟ (2)اگر کسی شخص کا کوئی دانت بڑھ کر گال کے اندر جارہا ہو اور تکلیف دہ ہو ، تو کیا اس کو گھِسوا کر برابر کروا سکتا ہے؟ سائلہ : اسلامی بہن (ریگل چوک ، صدر ، کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)دانت سیدھے کرنے کے لیے کلپ لگوانا ، جائز ہے ، البتہ اس میں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ اگر وہ کلپ منہ میں فکس نہیں ہے کہ بآسانی اتر جاتا ہے ، تو اس کو اتار کر وضو و غسل کرنا ہوگا اور اگر ایسا فکس ہے کہ بآسانی اتر نہیں سکتا ، بلکہ اتارنا تکلیف دہ ہے ، تو وضو و غسل کرتے ہوئے اگرچہ اس کے نیچے پانی نہ بھی جائے ، اس کو اتارنا  ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہی وضو و غسل ہوجائے گا۔

(2)پوچھی گئی صورت میں اس شخص کا دانتوں کو گھسوا کر ، برابر کروانا ، جائز ہے ، کیونکہ یہ ایک قسم کا علاج ہے ، جس کی شرعاً اجازت ہے ، صرف خوبصورتی کے لیے دانت گھسوانا ، ناجائز ہے ، علاج یا کسی عذر کی وجہ سے دانت گھسوانا ، ناجائز نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


Share

Articles

Comments


Security Code