Book Name:Achay Logon Ki Nishaniyan
یہ بات یاد رکھیے! عِلْم اور فقاہَت میں بہت فرق ہے۔ فقاہَت کا مطلب ہوتا ہے: بندے نے کب کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ اس کی سمجھ نصیب ہو جائے۔
مثال کے طور پر *ایک آدمی وُضُو کر رہا ہے، اُس کو مَعْلُوم ہے کہ مِسْواک کرنا سُنّت ہے اور وہ مِسْواک بھی کر رہا ہے، اُدھر جماعت کھڑی ہے۔ اب 2صُورتیں ہوں گی، ایک تَو یہ کہ آدمی اِدھر مِسْواک ہی کرتا رہے، اُدھر جماعت گزر جائے۔ یہ فقاہَت نہ ہونے کی نشانی ہے۔ دوسری صُورت یہ کہ آدمی فِی الحال مِسْواک کی سُنّت کو چھوڑے اور جلدی سے جماعت میں شامِل ہو، یہ فقاہَت ہے *یُونہی بندہ غریب ہے، اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، نماز اس پر فرض ہے لیکن وہ نماز کے اَحْکام نہیں سیکھتا، زکوٰۃ کے اَحْکام سیکھ رہا ہے، یہ بھی فقاہَت نہ ہونے کی نشانی ہے۔ غرض؛ بندے کو یہ پتا چل جائے کہ میں نے کب کیا کرنا ہے؟ اس کو فقاہَت کہیں گے۔ اس کی ایک مثال ہمیں حدیثِ پاک میں بھی ملتی ہے:
بنی اسرائیل کے عبادت گزار کا واقعہ
پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: پہلی اُمّتوں میں جُرَیج نام کا ایک شخص تھا، بہت عِبَادت گزار تھا۔
وضاحت کر دُوں؛ یہ حضرت جُرَیْج رحمۃُ اللہ علیہ اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ بعض روایات میں یُوں بھی ہے کہ یہ پہلے تجارت کیا کرتے تھے، انہیں تجارت میں کبھی فائدہ ہو جاتا، کبھی نقصان ہو جاتا۔ ایک مرتبہ انہوں نے سوچا: چھوڑو جِی! وہ تجارت کرتے ہیں جس میں نقصان نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ایک عبَادَت خانہ بنایا اور عِبَادت