Book Name:Achay Logon Ki Nishaniyan
ایک مرتبہ حضرت اِمام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ کی خِدْمت میں ایک شخص حاضِر ہوا، عرض کیا: عالی جاہ...!! مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ مولیٰ علی رَضِیَ اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ عنہ کے درمیان جو مُعاملات ہوئے، اُس کے مُتَعلِّق آپ کیا فرماتے ہیں؟ امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ خاموش ہو گئے، کچھ دَیر بعد یہ آیتِ کریمہ تلاوت کی: ([1])
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْۚ- (پارہ:1، سورۂ بقرۃ:141)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:وہ ایک اُمّت ہے جو گزر چکی ہے، ان کے اعمال ان کےلئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں۔
آپ بتانا یہ چاہتے تھے کہ بھائی...!! وہ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان تھے، وہ سب جنّتی ہیں، ان کے درمیان جو کچھ ہوا، اُس کا فیصلہ روزِ قیامت اللہ پاک فرمائے گا، ہمیں بڑوں کے آپسی معاملات سے کیا تَعلُّق...!! جس بات کا ہم سے سُوال ہو گا، اس کی بات کرو! وہ سیکھو! وہ سمجھو! غیر ضروری معاملات میں دخل کیوں دیتے ہو؟
پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہمارے سمجھنے کی بات ہے۔ دِین میں فقاہَت حاصِل کیجیے! یعنی اَصْل سیکھنے، سمجھنے، دیکھنے، غور کرنے، تبصرے اور تجزئیے کرنے کی یہ بات ہے کہ *مجھ پر کیا لازِم ہے؟ *میں نے کیا کِیَا؟ *میں کیا کر رہا ہوں؟ *میں نے اپنی ذِمَّہ داریاں پُوری کر لی ہیں یا نہیں؟ یہی سیکھنے، سمجھنے اور غور کرنے میں مَصْرُوف رہنا چاہیے۔ * اللہ پاک ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں *مَحْبوب صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم اللہ پاک کے