Book Name:Achay Logon Ki Nishaniyan
برکت عطا فرما دیتا ہے۔ ([1])
مَعْلُوم ہوا؛ اللہ پاک نے جو کچھ عطا فرمایا ہے، جو اس پر راضِی ہے، وہ بھلا بندہ ہے۔ مزید سے مزید کا طلبگار ہے، پِھر چاہے وہ کروڑ پَتِی ہو، چاہے غریبوں کا غریب ہو، جب اللہ پاک کی تقسیم پر راضِی نہیں ہے تو ہر گز بھلا بندہ نہیں ہے۔
*محبوبِ ذیشان، مکی مَدَنی سلطان صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اِذَا اَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا اِسْتَعْمَلَهٗ عَلٰی قَضَاءِ حَوَائِجِ النَّاسِ یعنی اللہ پاک جس بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اس سے لوگوں کی حاجتیں پُوری کرنے کا کام لے لیتا ہے۔ ([2])
سُبْحٰنَ اللہ ! لوگوں کی حاجتیں ہمارے مُتَعلِّق ہو جائیں تو بعض دفعہ ہم اُکتا جاتے ہیں *اِدھر سے ایک آیا: تھوڑا قرض چاہیے *کسی کا فُون آیا: مُعَاملات میں پھنسا ہوا ہوں، تھوڑی مدد کر دو! *کوئی کچھ کہہ رہا ہے، فُلاں اپنی حاجتیں لیے آ رہا ہے ۔ ہم اُکتا جاتے ہیں کہ بھائی میری بھی کوئی زندگی ہے کہ نہیں؟ مجھے اپنے بھی تو کام کرنے ہوتے ہیں۔ نہ...!! ایسا مت کیجیے! اللہ پاک نے لوگوں کی حاجتیں آپ کے مُتَعلِّق کی ہیں، آپ ان کی حاجتیں پُوری فرمائیے! آپ کا یہی کام ہے۔ حدیث شریف کے مُطَابِق جو بندہ دوسروں کی حاجتیں پُوری کرنے میں لگا رہتا ہے، اللہ پاک اس کے کام بناتا رہتا ہے۔ ([3])