Book Name:Achay Logon Ki Nishaniyan
رحمت فرماتا ہے اور فِرشتوں کو حکم دیتا ہے: اس بندے کو تجارت سے دُور کر دَو ، اگر اس کے لیے تجارت آسان کر دی گئی تو یہ اس کے جہنّم میں جانے کا سبب بن جائے گی۔ پس فرشتے اُس کے اور تجارت کے درمیان حائِل ہو جاتے ہیں۔ ([1])
اللہ اکبر! کیسی بات ہے...!! بندہ گھر سے نِکلا، دُکان پر پہنچا، چُونکہ اللہ پاک نے اس پر فضل فرمانا ہے، اِرادۂ اِلٰہی ہو گیا کہ اس پر خصوصی کرم و احسان کیا جائے گا، لہٰذا فرشتوں کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے، کس بات کی...؟ یہ کہ آج سارے بازار کے گاہک اس کے دُکان پر جمع کر دئیے جائیں...؟ نہیں...!! نہیں...!! فرشتوں کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے کہ آج اس کی دُکان پر کوئی گاہَک نہیں آنے دینا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اگر اس کےپاس مال آ گیا تو یہ غفلت کا شِکار ہو جائے گا، گُنَاہوں میں مبتلا ہو کر جہنّم کا حقدار بن جائے گا۔
اللہ ! اللہ ! ہمارے ہاں اگر یُوں آزمائش آجائے تو لوگ شِکْوے کرتے ہوئے کہتے ہیں: کون سا گُنَاہ ہو گیا کہ مجھ پر ہی آزمائش آ گئی ہے۔ ایسا کہنا نہیں چاہیے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ یہ میرے گُنَاہوں ہی کی شامَت ہے، جس کی وجہ سے یہ آزمائش آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آزمائش آئے تو شکر کرنا چاہیے کہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ فرماتا ہے، اُسے آزمائش میں مبتلا فرما دیتا ہے۔
یہاں ایک بات یاد رکھیے! ہمیں آزمائش کی دُعا مانگنے کی اِجازت نہیں ہے۔ بعض لوگ جب اس طرح کی احادِیث سنتے ہیں تو اپنے لیے آزمائش کی دُعا کر لیتے ہیں کہ یا اللہ