Achay Logon Ki Nishaniyan

Book Name:Achay Logon Ki Nishaniyan

اِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیْضَ جب تم (مسلمان) مریض کے پاس جاؤ تو فَقُوْلُوْا خَیْرًا وہاں زبان سے صِرْف اچھی بات ہی نکالا کرو!

اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: فَاِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلٰی مَا تَقُوْلُوْنَبیشک (مریض کے پاس بیٹھ کر) تم جو بات منہ سے نکالتے ہو، فرشتے اُس پر آمین کہتے ہیں۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! یہ شان مسلمان کی شان ہے۔ اِس حدیثِ پاک میں کوئی قید نہیں ہے کہ *وقت کے غوث کے پاس بیٹھو یا *ولیوں کے وَلِی کے پاس بیٹھو۔ بلکہ کوئی *عام سا مسلمان خواہ وہ اَمِیْر کبیر نہ ہو *خواہ وہ گنہگار ہی ہو *چاہے کپڑے کی معمولی سی جھونپڑی میں رہتا ہو *چاہے پُورے شہر میں سب سے بڑا غریب ہو، اگر اس کے دِل میں نُورِ ایمان موجود ہے تو اُس کی یہ شان ہے، بیمار ہو جائے تو فِرشتے اُس کے پاس موجود رہتے ہیں، کوئی عِیَادت کے لیے آجائے تو حکم ہے کہ زبان سنبھال کر بیٹھے، کوئی بھی غلط جملہ یہاں زبان سے نہ نکالے، کیونکہ اس کی زبان سے بات نکلے گی، فرشتے آمین کہیں گے اور کہی ہوئی بات  قبول ہو جائے گی۔

اب دیکھیے! بندہ چاہے دُنیا کا سب سے امیر، ارب، کھرب پتی ہی کیوں نہ ہو، جب اُس کے دِل میں اِیْمان کا نُور موجود نہیں ہے تو یہ شان اُسے نصیب نہیں ہے جو ایک عام سے غریب تَرِین مسلمان کو بھی نصیب ہے۔

پتا چلا؛ بھلا اِیْمان والا ہے کہ اس کے ساتھ فرشتے رہتے ہیں۔ غیر مُسْلِم چاہے کتنا ہی امیر کبیر، پڑھا لکھا، ٹپ ٹاپ والا  کیوں نہ ہو، وہ ہرگز ہرگز بَھلا نہیں بلکہ بُرا ہی بُرا ہے۔  اللہ


 

 



[1]...مسلم، کتاب الجنائز، باب مایقال عند المریض و المیت، صفحہ:330، حدیث:919۔