Book Name:Himmat Wale Rasool
اکیلے بھی ہوں تو کیا حرج ہے؟اکیلے ہی نیکی کی دعوت عام کریں، اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم! رَبِّ کریم کرم فرمائے گا، کارواں بن جائے گا۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانِبِ منزل مگر لوگ ملتے گئے، کارواں بنتا گیا
حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کی ہمّت کی بات دیکھیے! آپ علیہ السَّلام کا سگا چچا آزَر بھی مُشْرِک تھا۔ یعنی دُشمن گھر ہی میں موجود تھا۔ روزانہ اُس کا سامنا ہوتا۔ آپ علیہ السَّلام نے اُسے بھی نیکی کی دعوت دی، کیسے دِی؟ سُبْحٰنَ اللہ! قرآنِ کریم میں ہے: آپ نے اپنے چچا آزَر سے فرمایا:
یٰۤاَبَتِ (پارہ:16، سورۂ مریم:42)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:اے میرے باپ!
اللہ اکبر! لہجوں کی نَرْمی پر غور فرمائیے! آپ نے اپنے چچا کے لیے لفظ اَبٌ استعمال فرمایا: اس کا لفظی معنیٰ ہوتا ہے: باپ، ابُّو۔ نیکی کی دعوت کا کتنا نَرْم انداز ہے۔ چچا کو اَبُّو کہہ کر مخاطب کیا، فرمایا:
لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ (پارہ:16، سورۂ مریم:42)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:تم کیوں ایسے کی عبادت کررہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے۔
ایک طرف یہ نرم لہجہ ہے، پیار بھری گفتگو ہے اور دلیل بھی ساتھ ہی دے دی کہ جو سُن نہ سکے، جو دیکھ نہ سکے، وہ بھلا خُدا کیسے ہو سکتا ہے۔ ظاہِر ہے عِبَادت تَو اُسی کی ہو گی جو عبادت گزار سے زیادہ اِخْتیار والا، زیادہ قدرت والا، زیادہ رُتبے والا ہو۔ یہاں تو بات ہی عجیب ہے، عبادت کرنے والا دیکھ بھی سکتا ہے، سُن بھی سکتا ہے اور جس کی عبادت کی جا