Book Name:Ehsaas e Kamtri Ki Chand Wajohat Aur Ilaj
پنڈلیاں دُبلی پتلی تھیں ، ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِسْواک توڑنے کے لئے درخت پر چڑھے تو اچانک ہوا چلنے سے کپڑا ہٹ گیا اور آپ کی پنڈلیاں نظر آنے لگیں ، وہاں موجود لوگوں کی نظر آپ کی مبارک پنڈلیوں پر پڑی تو لوگ ہنسنے لگے ، اس پر بےکسوں کے غمخوار ، مکی مدنی تاجدار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اُس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے ، عبد اللہ بن مسعود کی پنڈلیاں میزانِ عمل پر اُحُد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہیں۔ ( [1] )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب ! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
اللہ کے بندو ! بھائی بھائی ہو جاؤ... !
ایک مرتبہ ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا ، اسے کوئی حاجت تھی اور وہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرنا چاہتا تھا مگر جب وہ حُضُور جانِ کائنات ، فَخْرِ موجودات صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے حاضِر ہوا تو اُس پر نبوت کا رُعْب طاری ہو گیا اور وہ کپکپانے لگا ، اُس کی یہ حالت دیکھ کر غم خوار نبی ، مکی مدنی ، مُحَمَّد عربی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : پُرسکون ہو جاؤ... ! میں ( دُنیوی بادشاہوں جیسا ظالِم ) بادشاہ نہیں ہوں ، میں قریش کی اُس عورت کا بیٹا ہوں جو مکہ مکرمہ میں رہتی تھی اور سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔ ( [2] )
اللہ اَکْبَر ! اے عاشقانِ رسول ! اندازہ کیجئے ! زبانِ نبوت سے یہ میٹھا اور پیارا پیارا کلام سُن کر اُس شخص کا دِل کیسا مطمئن ہو گیا ہو گا ، اُس کے دِل میں عشقِ رسول کے کتنے چراغ جل اُٹھے ہوں گے۔
حدیثِ پاک کا باقی حِصَّہ : اے عاشقانِ رسول ! وہ شخص جس پر جلالِ نبوت کا