Book Name:Shan e Ameer Hamza
ہو ، چل پھر سکتا ہو ، اسے زِندہ کہا جاتا ہے ، لیکن اس جگہ قرآنِ کریم نے زِندگی کا ایک اَور ہی مفہوم بیان فرمایا ہے ، دیکھئے ! حضرت امیرِ حمزہ رَضِیَ اللہ عنہ کو دُنیا میں تشریف لائے 40 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا ، آپ چلتے پھرتے بھی تھے ، کھاتے پیتے بھی تھے ، شکار بھی کیا کرتے تھے ، اس کے باوُجُود اللہ پاک نے فرمایا :
كَانَ مَیْتًا
ترجَمۂ کنزُ العرفان : وہ جو مُردہ تھا ۔
پھر جب آپ نے اسلام قبول کر لیا ، آپ کا دِل نورِ ایمان سے روشن ہو گیا تو فرمایا :
فَاَحْیَیْنٰهُ
ترجَمۂ کنزُ العرفان ہم نے اُسے زندہ کردیا ۔
معلوم ہوا ؛ اصل زِندگی دِل کی زِندگی ہے ، جس کے دِل میں ایمان کا نُور موجود ہے ، وہ زِندہ ہے ، اور جس کے دِل میں یہ نُور موجود نہیں ہے ، اُس کا دِل بھی مردہ ہے ، وہ خود بھی زِندوں کی شکل میں مُردہ ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو ! یہاں سے معلوم ہوا کہ دِل کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری ہے ، آج کل ہمارے ہاں لوگ ظاہِری جسم کی دیکھ بھال پر زیادہ توَجُّہ دیتے ہیں ، ہمارے جسم کو روزانہ کتنی خوراک کی حاجت ہے ؟ کتنی کیلوریز ضروری ہیں ، جسمانی طور پر کمزوری ہو تو ڈاکٹر سے رجوع بھی کیا جاتا ہے ، لوگ جسم کو فِٹ رکھنے کے لئے ورزش بھی کرتے ہیں ، اور جسم کو فِٹ رکھنے کے لئے ویٹ لفٹنگ ( Weightlifting ) بھی کرتے ہیں۔
خود کو جسمانی طور پر تندرست رکھنے کی کوشش بُری نہیں ہے ، البتہ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ سب کچھ ہم اپنے دِل کے معاملے میں بھی کرتے ہیں ؟ کیا کبھی ہم نے