Book Name:Shan e Ameer Hamza
مجھے ایک دینار ( سونے کا سِکّہ ) مل جائے۔
فرماتے ہیں : یہاں سے فارغ ہو کر میں اپنے پِیر و مرشد حضرت ابو الحسن شاذلی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضِر ہوا ، وہ شخص بھی میرے ساتھ تھا ، ابھی کوئی بات بھی نہ ہوئی تھی ، اس سے پہلے ہی شیخ ابو الحسن شاذلی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اس شخص سے فرمایا : اے کم ہمت ! دُعا کی قبولیت کا وقت تھا اور تُو نے صِرْف ایک دینار مانگا ، تُو نے ابو العباس کی طرح دُنیا و آخرت میں عفو و عافیت کا سوال کیوں نہ کر لیا۔ ( [1] )
اے عاشقانِ رسول ! معلوم ہوا؛ اللہ پاک کے نیک بندوں کی خِدْمت میں حاضِری ہو ، مزاراتِ اولیا پر جانا نصیب ہو اور ا س کے عِلاوہ بھی جب کبھی دُعامانگیں تو کھلے دِل سے مانگنی چاہئے ، اللہ پاک کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے ، وہ رحمٰن و رحیم ہے ، اللہ وَھَّاب ( یعنی بہت عطا فرمانے والا ) ہے ، لہٰذا جب اللہ پاک سے مانگنا ہو تو بندہ شرمائے کیوں ؟ دو چار پیسے ، چند وقت کا کھانا یا کوئی اور معمولی خواہش ہی کیوں مانگے ؟ چھوٹی بڑی ہر چیز اللہ پاک سے مانگے ، پھر یہ بھی نہیں کہ صِرْف دُنیوی نعمتیں ، مال و دولت تو مانگ لے ، آخرت کی بہتریاں نہ مانگے ، نہیں ، نہیں ، ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہئے بلکہ درست طریقہ یہ ہے کہ دُعا مانگنے میں پہلے آخرت کی بہتری و بھلائی مانگے ، پھر دُنیا کی بہتری و بھلائی اور جو حاجت ہو وہ مانگے۔ صِرْف دُنیا مانگنا ، آخرت کی فِکْر ہی نہ کرنا ، یہ اچھی بات نہیں ۔