Book Name:Hum Nay Karbala Say Kia Seekha

  اس انقلاب اور ترقی کی بنیاد جن نظریات پر تھی ،  وہ نظریات پیش کرنے والے مفکرین میں ایک مُفَکِّر اس ناوِل کا مصنف بھی ہے ،  مصنف نے اس ناوِل میں اپنے مخصوص انداز میں کامیابی کے اُصُول اور ناکامی کے اسباب بیان کئے ہیں۔ پھر ٹیچر نے اس ناوِل کے متعلق لیکچر شروع کیا؛ مصنف کہتا ہے :  اگر ہم نے زِندگی کے سَفَر میں کامیاب ہونا ہے تو اس کے لئے صبر اور برداشت کی سخت ضرورت ہے ،  ہمیں کامیابی کے لئے تحمل مزاج  یعنی قوتِ برداشت والا ہونا چاہئے ،  کامیابی کے لئے ہم دوسروں پر بھروسا نہیں کر سکتے ،  ہمیں خود پر اعتماد کرنا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ زیادہ خود اِعتمادی ( Over confidence )  سے بھی بچنا ہو گا وغیرہ۔

اسلامی بھائی کہتے ہیں :  ٹیچر ناوِل کی سٹوری سے ملنے والے سبق بتا رہے تھے اور میرے ذِہن میں واقعۂ کربلا چل رہا تھا ،  جیسے ہی ٹیچر نے اپنا لیکچر ختم کیا تو میں بےساختہ بولا :  سَر !  یہ سب کچھ تو ہمیں کربلا بھی سکھاتی ہے ،  امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ  نے ہمیں صرف صبر بتایا نہیں ،  کر کے دکھایا ،  حِلْم ،  بُرد باری ،  قُوَّتِ برداشت ،  خود اعتمادی وغیرہ یہ سب وہ باتیں ہیں جو امام حسین رَضِیَ اللہ عنہ  نے ہمیں لکھ کر اگرچہ نہیں دِیں مگر کر کے ضرور دکھائی ہیں۔

میری یہ بات سُن کر ٹیچر حیرت میں پڑ گئے ، پھر کچھ دیر بعد بولے :  ہاں !  واقعی... ! ! یورپین مُفَکِّر نے ہمیں کہانی لکھ کر سمجھایا مگر امامِ حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ  نے یہ سب کچھ عملی طَور پر کر کے دِکھا دیا ہے۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو                 ہر قوم پُکارے گی ہمارے ہیں حُسَین