Book Name:Aur Ibrat-o-Naseehat

جس کے ذریعے میں غلّہ ماپا کرتا تھا ، (میری بےاحتیاطی کی وجہ سے) اس میں کچھ مٹی سی بیٹھ گئی تھی ، میں نے لاپرواہی کی اور اسے صاف نہ کیا ، چنانچہ جب بھی میں اُس پیمانے کے ذریعے غَلَّہ ماپتا تو اُس مٹی کی مِقْدار غَلَّہ کم ہو جاتا تھا ، بَس اسی قُصُور کے سبب عِتاب میں گرفتار ہوں۔ ([1])

اے عاشقانِ رسول! غور فرمائیے! بظاہرایک معمولی سی لاپرواہی جنّت میں داخلے سے رُکاوٹ بن گئی ، لہٰذا ہماری زِندگی کا ہر ہر لمحہ قیمتی ہے ، ہم جو بولتے ہیں ، ہم جو سنتے ہیں ، ہم جو کرتے ہیں ، یہ سب ہمارے اَعْمال نامے میں محفوظ ہو رہا ہے ، کل روزِ قیامت یہ سب کچھ ہمارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ آہ! اگر ہم سے ہمارے گُنَاہوں کا حساب لے لیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ہائے! ہائے! آج زبان چلتی ہے تو بِنا سوچے سمجھے چلتی ہی چلی جاتی ہے ، جھوٹ ، غیبتیں ، چغلیاں ، دِل آزاریاں ، نہ جانے کیسے کیسے گُنَاہ زبان سے ہوتے ہی رہتے ہیں ، آنکھوں کی پُوری طرح حِفَاظت بھی ہم سے نہیں ہو پاتی ، کانوں کو بُری باتیں سننے سے ہم نہیں بچا پاتے اور بھی نہ جانے کیسے کیسے گُنَاہ دِن رات ہوتے ہیں ، آہ! یہ کمزور بدن ، ہائے! ہائے! وہ جہنّم کے ہولناک عذابات...! آہ! اگر محشر کے روز اَعْمَال نامہ کھول دیا گیا ، اگر ہم سے حِسَاب لے لیا گیا تو ہمارا بنے گا کیا...!!

گنہگار ہوں میں لائقِ جہنّم ہوں                       کرم سے بخش دے مجھ کو نہ دے سزا یارَبّ!

برائیوں پہ پشیماں ہوں رَحم فرما دے             ہے تیرے قہر پہ حاوی تری عطا یارَبّ!

گُنَاہ بے عدد اور جُرم بھی ہیں لاتعداد               مُعاف کر دے نہ سہ پاؤں گا سزا یارَبّ!


 

 



[1]... تَنْبِيْهُ الْمُغْتَرَّيْن ، صفحہ : 47۔