Book Name:Aur Ibrat-o-Naseehat
رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اس نے ابھی 7 آیات ہی سیکھی ہیں اور کہتا ہے : مجھے کافِی ہے۔ پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو! اسے فَقَاہَت (یعنی دِین کی سمجھ ) مِل گئی ہے۔ ([1])
اے عاشقانِ رسول! معلوم ہوا قرآنِ کریم کے یہ 35 الفاظ (یعنی مکمل سورۂ زِلْزال) اگر انہیں سمجھ کر ذِہن میں بٹھا لیا جائے اور بندہ اس کے مطابق زِندگی گزارے تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! ساری زِندگی کامیاب گزرے گی۔
مری زندگی بس تری بندگی میں ہی ہے اے کاش گزرے سدا یااِلٰہی! ([2])
بنیادی طَور پر سورۂ زِلْزَال میں انسان کی ذِمَّہ داری (Responsibility) کا بیان ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ انسان اس دُنیا میں بےلگام نہیں ہے بلکہ یہ اپنی زِندگی کے ایک ایک منٹ کا خُود ذِمَّہ دار ہے ، یہ اس دُنیا میں اچھائی کرے یا بُرائی کرے ، اس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی محفوظ رکھا جائے گا ، روزِ قیامت اسے بارگاہِ اِلٰہی میں حاضِر کر دیا جائے گا اور یہ اپنے ہر ہر عَمَل کا جواب دِہ ہو گا۔ غرض؛ انسان اس دُنیا میں جانوروں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اپنی زِندگی کے ایک ایک لمحے کا خُود ذِمَّہ دار ہے ، اسے چاہئے کہ لمحہ لمحہ سوچ سمجھ کر پُوری ذِمَّہ داری سے بسر کرے۔ آئیے! سورۂ زِلْزال کی وضاحت سُنتے ہیں۔