Book Name:Aur Ibrat-o-Naseehat

امام اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : ان پہاڑوں کو کلمۂ شہادت پڑھ کر گواہ کیوں نہیں کر لیتے...!!  پھر آپ نے ایک ایمان افروز واقعہ سُناتے ہوئے فرمایا : ایک صاحِب کا معمول تھا جب مسجد تشریف لاتے تو 7 ڈھیلے جو مسجد کے باہر رکھے تھے ، کلمۂ شہادت پڑھ کر انہیں اپنے ایمان کا گواہ بنا لیا کرتے ، اسی طرح جب واپس ہوتے تو گواہ بنا لیتے۔ ان کے انتقال کے بعد فرشتے ان کو جہنّم کی طرف لے چلے ، اُن ساتوں ڈھیلوں نے 7 پہاڑ بَن کر جہنّم کے ساتوں دروازے بند کر دئیے اور کہا : ہم اس کے کلمۂ شہادت کے گواہ ہیں۔ یُوں ڈھیلوں کو گواہ بنانے کی برکت سے انہوں نے جہنّم سے نجات پائی۔ پھر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ نے سب کو ترغیت دلاتے ہوئے فرمایا : جب ڈھیلے پہاڑ بَن کر جہنّم سے رُکاوٹ بن گئے ،  یہ تَو پہاڑ ہیں۔ یہ سُن کر سب لوگ بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھنے لگے۔ ([1])

جانشینِ امیرِ اہلسنت ، الحاج مولانا عبید رضا عطّاری مدنی مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی فرماتے ہیں : 1418 ہجری کی بات ہے ، ہم شارجہ میں تھے ، ایک بار کہیں سے گزر رہے تھے کہ شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علَّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ایک درخت کے نیچے  کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھا ، پوچھنے پر ارشاد فرمایا : الحمد للہ! میں نے اس درخت کو بلند آواز سے کلمۂ طیبہ سُنا کر اپنے ایمان پر گواہ بنایا ہے۔  

شیخ طریقت ، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کی ایک نرالی ادا یہ بھی ہے کہ آپ نے کئی بار مدینۂ پاک کے پاکیزہ درختوں کو کلمۂ طیبہ سُنا کر اپنے ایمان کا گواہ بنایا ہے۔ چنانچہ اپنے ایک شعر میں لکھتے ہیں :


 

 



[1]...ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، صفحہ : 313 خلاصۃً ۔