Book Name:Naikiyan Chupaiy

صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں اللہ پاک کی رِضا کے لئے نیک اَعْمَال کرتا ہوں اور اس میں میری نیت صِرْف اللہ پاک کی رِضا ہی کی ہوتی ہے مگر جب میری نیکی ظاہِر ہو جاتی ہے ، لوگوں کو میرے نیک اَعْمَال کا پتا چل جاتا ہے تو میں خُوش ہوتا ہوں (کہ واہ! میری نیکیوں کی وجہ سے لوگوں میں میرا مقام اور میری عِزَّت بڑھ رہی ہے)۔ اس وقت یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ، ([1]) اور ارشاد ہوا :

فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰)

 (پارہ : 15 ، سورۂ کہف : 110)

ترجمہ : تَو جو اپنے رب سے ملاقات کی اُمِّید رکھتا ہو ، اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔

قیامت پر ایمان رکھنے کے 2 تقاضے

اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر وہ شخص جو قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، جسے یقین ہے کہ ایک دِن یہ دُنیا فنا ہو جائے گی ، جس کا ایمان ہے کہ اللہ پاک مخلوق کو دوبارہ زِندہ فرمائے گا ، قیامت قائِم ہو گی ، تمام مخلوق کو میدانِ محشر میں جمع کیا جائے گا ، سب اگلے پچھلے اللہ پاک کے حُضُور حاضِر ہوں گے ، جو جنّت کو مانتا ہے ، جو جہنّم کے عذابات پر یقین رکھتا ہے ، جو دِل سے اِقْرار کرتا ہے کہ روزِ قیامت اَعْمَال کا حِسَاب لیا جائے گا ، نیک لوگوں کو اللہ پاک کی رحمت سے جنّت میں داخِلہ نصیب ہو گا اور گنہگار جن پر اللہ پاک کا غضب ہو گا ، وہ جہنّم کے دردناک عذاب میں گرفتار ہوں گے ، جو شخص اس سچے عقیدے پر پختہ ایمان رکھتا ہے ، جو روزِ قیامت شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے ، جو جنَّت کا اُمِّید وار اور جہنّم سے آزادی کا طلب گار ہے ، اس کا یہ اِیْمان ، اُس کی جنّت میں جانے کی اُمِّید یہ تقاضا کرتی ہے


 

 



[1]... تفسیرِ قرطبی ، پارہ : 16 ، سورۂ کہف ، زیرِآیت : 110 ، جلد : 5 ، صفحہ : 305۔