Book Name:Naikiyan Chupaiy

وا کرتے ہوئے گھروں کو چلے گئے ، اب ہم ہیں اور ہمارے اَعْمال۔ اب اس تنہائی میں ، وحشت کے عالَم میں ، قبر کے اندھیرے میں پتا چلے کہ ہماری وہ ساری نیکیاں تو رِیاکاری کی وجہ سے برباد ہو گئیں...! آہ! وہ لمبی لمبی نمازیں ، تہجد ، اَوَّابین ، اشراق ، چاشت ، وہ گرمیوں کے روزے ، دِن بھر کی بھوک پیاس ، لاکھوں خرچ کر کے جو حج کئے تھے ، عمرے کئے تھے ، اپنے خُون پسینے کی کمائی جو غریبوں میں بانٹ دی تھی ، مسجد کی تعمیر میں حِصَّہ ڈالا تھا ، دینی مدرسے پر خرچ کیا تھا ، زِندگی بھر محنت کر کے ، مشقت اُٹھا کر ، ایک ایک کر کے نیکیاں جمع کی تھیں ، اُمِّید تھی ، بھروسا تھا کہ یہ نیکیاں قبر میں کام آئیں گی ، عذابِ قبر سے بچائیں گی ، سخت اندھیری رات کو روشن فرمائیں گی مگر افسوس! صد کروڑ افسوس...! اب قبر میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ  رِیاکاری کا شِکار ہو کر ساری محنت تو بربادکر لی ، اب اَعْمَال نامے میں تو کوئی نیکی نہیں ہے ، ریاکاریاں ہی ریاکاریاں ہیں ، آہ! صد کروڑ آہ! اللہ پاک بچائے...! پیارے اسلامی بھائیو!  اگر ایسا ہو گیا تو قبر کی اس تنہائی میں ، اس وحشت میں ہم پر کیا گزرے گی ، کیساغم کا پہاڑ ٹوٹے گا ، کیسی حسرت ہو گی...!! 

اُس وقت لوگ زمین کے اُوپر ہماری تعریف کر بھی رہے ہوئے تو کیا فائدہ؟ ہم تو قبر کی تنہائی میں غَم اور شرمندگی کا شِکار ہو رہے ہوں گے ، حسرت ہو رہی ہو گی مگر اَفسوس!

اب کیا ہَوَت ، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت

کچھ مرے بچنے کی صُورت کیجئے           اب تو جو ہونا تھا مولا ہو گیا([1])


 

 



[1]...ذوقِ نعت ، صفحہ : 35۔