Book Name:Naikiyan Chupaiy

کر کے اپنے آپ کے متعلق تَصَوُّر باندھے ، مثلاً ہم تَصَوُّر کریں کہ ہم بُوڑھے ہو چکے ہیں ، اب بازوؤں میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی ، اب زیادہ محنت والا کام نہیں کیا جاتا ، اس حالت میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں ، وہ کما نہیں سکتے ، محنت مزدوری نہیں کر سکتے ، اُن بچوں کی پرورش کا واحِد سہارا ہم ہی ہیں ، ہماری ایک دُکان ہے ، اُسی سے آمدن ہوتی ہے ، سارے اخراجات اسی سے چلتے ہیں ، کمائی کا اَور کوئی ذریعہ نہیں ہے ، سیل مین (Sale Man)آتا ہے اور مال دے جاتا ہے ، ہم آرام سے بیٹھے مال فروخت کر دیتے ہیں ، نظامِ زِندگی چل رہا ہے ، اچانک ایک رات اُس دکان میں آگ لگتی ہے ، سارا سامان جل کر راکھ ہو جاتا ہے ، آہ! جینے کا ایک ہی سہارا تھا ، وہ بھی نہ رہا۔

اب اس حالت میں کیسا صدمہ پہنچے گا؟ کیسی سخت تکلیف ہو گی؟رَہ رَہ کر چھوٹے  چھوٹے بچوں کا خیال آئے گا ، رَہ رَہ کر تکلیف ہو گی ، سینے میں غم کا سمندر اُمنڈ آئے گا ، آنسو نکلیں گے ، غم کا کیسا پہاڑ ٹوٹ جائے گا؟ اب اسی تَصَوُّر کو ذرا آخرت کی طرف موڑ دیجئے! ہم نے دُنیا میں کئی سال گزارے ، ساری زِندگی نمازیں پڑھتے رہے ، روزے رکھتے رہے ، صدقہ و خیرات کرتے رہے ، اشراق و چاشت اور اَوَّابین کے بھی پابند رہے ، تہجد بھی کبھی نہ چھوڑی ، نفل حج بھی کئے ، عمرے بھی کئے ، نیکیوں پر نیکیاں کرتے چلے گئے ، اپنے طور پر ہم بہت نیک تھے ، اَعْمَال نامہ نیکیوں سے بھرا ہوا سمجھ رہے تھے ، اچانک موت کا فرشتہ آیا ، رُوح قبض کر لی گئی ، کہرام مچ گیا ، کتنا نیک آدمی تھا ، دُنیا سے چل بسا ، ہر آنکھ نَم ہے ، آہیں بلند ہو رہی ہیں ، آخر ہمیں کفن پہنا دیا گیا ، نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی ، آہ! پھر ہمیں اندھیری قبر میں اُتار کر ، تنہا چھوڑ کر لوگ غمگین دِل کے ساتھ ، تعریفیں کرتے ہوئے ، ہماری نیکیوں پر واہ