عقیدۂ توحید کا بیان

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے سب سے اہم اور پہلا نظریہ “ عقیدۂ توحید “ ہے۔ توحید تمام عقائد کی اِبتدا اور جَڑ ہے جس طرح درخت کا وُجود شاخ سے نہیں بلکہ جڑ کی وجہ سے باقی رہتا ہے اسی طرح عقیدۂ توحید پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ایک سے زیادہ خدا ہونے کے قائل ہیں اللہ پاک نے اُن کے کُفر کا صاف اعلان فرمایا ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے : لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕ-وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳) اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۴)  تَرجَمۂ کنزُالایمان : بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدااور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہونچے گا۔ ([i](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

عقیدۂ توحید انسان کے تمام تر اعمالِ صالِحہ اور اَخلاقِ حَسَنہ کی قبولیت کا پہلا ذریعہ ہے۔ قراٰنِ پاک میں عقیدۂ توحید کا انکار کرنے والوں کے اعمال کو اُس راکھ کی طرح بتایا گیا ہے کہ جسے ہوا کے جھونکے اُڑا اُڑا کر بے نام و نشان کر دیں چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے : مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸) تَرجَمۂ کنزُالعِرفان : اپنے رب  کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ ([ii](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

عقیدۂ توحید کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تمام آسمانی اَدْیان (یعنی مذاہب) کی بنیاد اسی عقیدۂ توحید پر ہے۔ تمام رُسُل  و انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کی بِعثت (تشریف آوری) اسی نظریَۂ توحید کی تبلیغ کے لئے ہوئی تھی جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(۲۵)  تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی کو پوجو۔ ([iii](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

توحید کیا ہے؟ توحید کا معنیٰ ہے : اللہ کریم کی ذاتِ پاک کو اس کی ذات اورصِفات میں شریک سے پاک ماننا یعنی جیسا اللہ ہے  ویسا ہم کسی کو اللہ نہ مانیں اگر کوئی اللہ پاک کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو اللہ تصَوُّر کرتاہے تو وہ ذات میں شِرک کرتاہے۔ عِلْم ، سَمع ، بَصر وغیرہ اللہ پاک کی صِفات ہیں ان صفات میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانے والا مشرک ہے۔ ([iv])

حضرت علّامہ ابراہیم بن محمد باجُوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ پاک اپنی ذات اور صِفات میں تنہا واحدہے یعنی ذات و صِفات میں اُس کی کوئی نظیر نہیں۔ ذات کے واحد ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ اَجزاسے مل کر بنے ہونے سے پاک ہے۔ صِفات میں تنہا ہونے سے یہ مراد ہے کہ جنسِ صفت (جیسے علم یا قدرت) میں کثرت سے پاک ہے جیسے دو یا اس سے زیادہ قدرتیں ، دو یا اس سے زیادہ علم۔ اسی طرح اَفعال میں یکتا ہونے کا یہ معنیٰ ہے کہ اللہ پاک کے افعال میں نہ تو کوئی دوسرا شریک ہےاور نہ ہی اس کا کوئی مددگار۔ ([v])

توحید اور شِرک میں فرق : کسی ذہن میں یہ سُوال پیدا ہوسکتا ہے کہ “ علم “ اللہ پاک کی صفت ہے۔ اگر کوئی کسی دوسرے کے لئے علم ثابت کرے تو کیایہ شرک ہوگا؟ سَمیع و بَصیر اللہ پاک کی صفات ہیں اگر کسی دوسرے کے لئے سننے اور دیکھنے کی صفات تسلیم کی جائیں تو کیا یہ بھی شرک ہوگا؟ اسی طرح اللہ پاک کے لئے صفتِ حیات ثابت ہے۔ اگر کسی دوسرے کو حیات (یعنی زندہ) کہا جائے تو کیا کہنے والا مشرک ہوجائے گا؟ جواب : اللہ پاک کی حیات پر تو سب کا ایمان ہے اور وہ تمام جنہیں اللہ پاک نے صفتِ حیات عطا فرمائی ہے اِس صفت کے حامل ہیں پس ہم نے اپنے لئے بھی حیات کی صفت کو جانا اور اللہ پاک کے لئے بھی صفتِ حیات کو مانا اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حیات ہم اللہ پاک  کے لئے مانتے ہیں وہ حیات نہ ہم اپنے لئے مانتے ہیں نہ کسی اور کے لئے۔ کیونکہ اللہ پاک ہمیں زندگی دینے والا ہے اللہ پاک کو کوئی حیات دینے والا نہیں۔ ہماری حیات عارضی ہے اس کی دی ہوئی ہے ، اللہ پاک کی حیات عارضی نہیں ، عطائی اورمحدود بھی نہیں ،  اللہ پاک کی حیات باقی ہے اورہماری مَحدود اور فانی ہے ، تو شرک ختم ہوگیا۔  یہی تصورات تمام مسائل میں پیش کرتے چلے جائیے بات واضح ہوجاتی ہے۔

ایک خدا بس تنہا ہے : جب ایک شہر میں دو  بادشاہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر اپنی بَرتری اور اپنا غلبہ پسند کرتا ہے کیونکہ متقابل بادشاہ اور حاکم ایسا ہی چاہتے  ہیں تو یہ عالَم(Universe) جو ایک شہر کی مانند ہے کیسے دو خداؤں کے تحت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ اس عالَم کے لئے دو معبود ہوں ، تمام عالمین کا ایک ہی معبود ہے اور وہ اللہ پاک کی ذات ہے۔ اس کی جانب قراٰنِ پاک میں یوں اشارہ فرمایا گیا : مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَۙ(۹۱) تَرجَمۂ کنزُالایمان : اللہ نے کوئی بچہ اختیار نہ کیا اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا یوں ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق لے جاتا اور ضرور ایک دوسرے پر اپنی تَعَلِّی(بڑائی) چاہتا ، پاکی ہے اللہ کو اُن باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔ ([vi])   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  ایک اور مقام پر یوں ارشادفرمایا : اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِۚ-اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَاِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(۵۱) تَرجَمۂ کنزُالایمان : اور اللہ نے فرمایا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھی سے ڈرو۔ ([vii](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(شرک کے بارے میں تفصیلی معلومات اگلے ماہ کے شمارے میں پڑھئے۔ اِنْ شَآءَ اللہ! )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*رکنِ مجلس المدینۃالعلمیہ کراچی



([i])   پ6 ، المآئدۃ : 73

([ii])   پ13 ، ابراہیم : 18

([iii])   پ17 ، الانبیآء : 25

([iv])   مقالاتِ کاظمی ، 3 / 19 ملخصاً

([v])   تحفۃ المرید ، ص151ملخصاً

([vi])   پ18 ، المؤمنون : 91

([vii])   پ14 ، النحل : 51


Share

Articles

Comments


Security Code