”خَاتَمُ النَّبِیِّیْن“ کا معنی تفاسیر کی روشنی میں

عقیدہ ختمِ نُبُوَّت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ یہ ایک حساس ترين عقیدہ ہے۔ ختم نبوت کا انکار قراٰن کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کا انکار صحابۂ کرام کے اجماع کا انکار ہے ۔ ختمِ نبوت کا انکار ساری امتِ محمدیہ کے علما و فقہا و اَسلاف کے اجماع  کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ  ماننا رسولِ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔  اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عظیم ہے : (  مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) )  تَرجَمۂ کنزُالایمان : محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ([i])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ختمِ نُبُوَّت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ “ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ “ کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد ، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاوِیلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قراٰن ، احادیث ، فرامین و اجماعِ صحابہ اور مفسرین ، محدثین ، محققین ، متکلمین اور ساری اُمّتِ محمّدیّہ کے خلاف ہیں۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی میں خاتم النبیین کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے ، چنانچہ مُفسّرِ قراٰن ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات : 310ھ) ، ابوالحسن علی بن محمد بغدادی ماوردی (وفات : 450ھ) ، ابو الحسن علی بن احمد واحدی  نیشاپوری شافعی (وفات : 468ھ) ، ابوالمظفر منصور بن محمد المروزی سمعانی شافعی (وفات : 489ھ) ، محیُّ السُّنّۃ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی (وفات : 510ھ) ، ابو محمد عبدُالحق بن غالب اندلسی محاربی (وفات : 542ھ) ، سلطانُ العلماء ابومحمد عز الدين عبدالعزيز بن عبد السلام  سلمی دمشقی (وفات : 660ھ) ، ناصرُ الدّين ابوسعيد عبدُالله بن عمر شیرازی بیضاوی (وفات : 685ھ) ، ابوالبركات عبدُالله بن احمد نسفی (وفات : 710ھ) ، ابوالقاسم محمد بن احمد بن محمد الکلبی غرناطی (وفات : 741ھ) ، ابوعبدُالله محمد بن محمد بن عرفہ ورغمی مالکی (وفات : 803ھ) ، جلال الدّين محمد بن احمد محلی (وفات : 864ھ) اور ابوالسعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفىٰ (وفات : 982ھ)    رحمۃ  اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین   سمیت دیگر کثیر مفسرینِ کرام نے  اس آیت کی تفسیر میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے آخری نبی ہونے کی تصریح و تاکید  فرمائی ہے۔  ذیل میں چند تفاسیر کے اِقتِباسات ملاحظہ کیجئے :

* امامِ اہلِ سنّت ، ابو منصور ماتریدی (وفات : 333ھ) اپنی تفسیر “ تاویلات اہل السنۃ “ میں لکھتے ہیں : جو کوئی آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تو اس سے کوئی حجت و دلیل طلب نہیں کی جائے گی بلکہ اسے جھٹلایا جائے گا  کیونکہ رسول اکرم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    فرما چکے ہیں : لَا نَبِیَّ بَعْدِي یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ([ii]) * صاحبِ زادُالمسیر ابوالفرج عبدُالرّحمٰن بن علی جوزی (وفات : 597ھ) لکھتے ہیں : خاتم النبیین  کے معنی آخِرُالنّبیین ہیں ، حضرت  عبداللہ ابنِ عباس   رضی اللہ عنہما   نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمّدِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے ذریعے  سلسلۂ نُبُوَّت ختم نہ فرماتا تو  آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کا  بیٹا حیات رہتا جو ان کے بعد نبی ہوتا۔ ([iii]) * الجامع لاحكامِ القراٰن میں امام ابوعبدُالله محمد بن احمد قُرطبی (وفات : 671ھ) لکھتے ہیں : “ خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علمائے اُمّت کے نزدیک  مکمل طور پر عُموم(یعنی ظاہری معنیٰ) پر ہیں جو بطورِ  نَصِ قطعی  تقاضا کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور خاتم النبیین کے  ختم نبوت کے خلاف  دوسرے معنیٰ نکالنے اور تاویلیں  کرنے والوں کا رَد کرتے ہوئے امام قُرطبی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اِلْحاد یعنی بے دینی ہے اور ختمِ نُبُوَّت کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تشویش میں ڈالنے کی خبیث حرکت ہے ، پس ان سے  بچو اور بچو اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے۔ ([iv]) * تفسیر  لُبابُ التاویل میں حضرت علاءُالدّین علی بن محمد خازِن (وفات : 741ھ) لکھتے ہیں : خاتم النبیین کے معنی ہیں کہ اللہ کریم نے ان پر سلسلۂ نُبُوَّت ختم کردیا پس ان کے بعد کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور نبی ہے۔ حضرت سیّدُنا عبدُالله بن عباس   رضی اللہ عنہما   فرماتے ہیں : کیونکہ اللہ کریم جانتا تھا کہ رسولِ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے بعد کوئی نبی نہیں اسی لئے آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کو کوئی ایسی مذکر اولاد عطا نہ فرمائی جو جوانی کی عمر کو پہنچی ہو اور رہا حضرت عیسیٰ   علیہ السَّلام   کا تشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے پہلے دنیا میں تشریف لاچکے اور جب آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے اور انہی کے قِبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھیں گے  گویاکہ آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی اُمّت سے بھی ہوں گے۔ ([v]) * مشہور تفسیر اللباب فی  علوم الكتاب میں ابوحفص سراج الدين عمر بن علی حنبلی دمشقی (وفات : 775ھ) حضرت سیدنا عبدُالله بن عباس کا قول “ اللہ کریم کا فیصلہ تھا کہ رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے بعد کوئی نبی نہ ہو اسی لئے ان کی کوئی مذکر اولاد سن رجولیت(یعنی  جوان آدمی کی عمر) کو نہ پہنچی “ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : کہا گیا ہے  کہ جن کے بعد کوئی نبی نہیں ، وہ اپنی اُمّت پر بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہاں ہوں گے گویا کہ وہ اُمّت کے لئے اس والد کی طرح ہوں گے جس کی  اور کوئی اولاد نہ ہو۔ ([vi]) اس تفسیر کے مطابق دیکھا جائے تو اللہ ربُّ العزّت کے بعد اس اُمّت پر سب سے زیادہ شفیق و مہربان جنابِ محمدِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    ہی ہیں ، جس پر آیتِ قراٰنی ( عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)    تَرجَمۂ کنزُ الایمان : جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔ ([vii]) سمیت کثیر  آیات واضح دلیل ہیں۔  * تفسیر نظم الدرر میں حضرت ابراہیم بن عمر بقاعی (وفات : 885ھ) لکھتے ہیں : کیونکہ رسول کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی رسالت اور نبوت سارے جہان کے لئے عام ہے اور یہ اعجازِ قراٰنی بھی ہے (کہ آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی سارے جہاں کے لئےہدایت ہے) ، پس اب کسی نبی و رسول کے بھیجنے کی حاجت نہیں ، لہٰذا اب رسولِ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے بعد کوئی نبی بھی پیدا نہ ہوگا ، اسی بات کا تقاضا ہے کہ رسولِ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کا کوئی شہزادہ   سنِ بلوغت کو نہ پہنچا اور اگر آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے بعد کسی نبی کا آنا علمِ الٰہی میں طے ہوتا تو  محمدِ مصطفےٰ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے اِکرام و عزت کے لئے ضرور آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی مبارک نسل ہی سے ہوتا کیونکہ آپ سب نبیوں سے اعلیٰ رتبے اور شرف والے ہیں لیکن اللہ کریم نے آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے اکرام اور اعزاز کے لئے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا۔ ([viii]) * تفسیر الفواتح الالٰہیہ میں شیخ علوان نعمتُ الله بن محمود (وفات : 920ھ) فرماتے ہیں : رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   اللہ کی جانب سے اللہ کے بندوں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے ، اللہ کریم نے  تمہیں راہِ رُشد و ہدایت  دکھانے کے لئے  تمہاری طرف اُمَمِ سابقہ کی طرح رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم     کو بھیجا ، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ یہ خاتم النبیین اور ختم المرسلین ہیں کیونکہ ان کے تشریف لانے کے بعد دائرہ نبوت مکمل ہوگیا اور پیغامِ رسالت تمام ہوگیا جیسا کہ خود رسالت مآب   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ کریم نے آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کی شان میں فرمایا ہے : ( اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ )    (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  تَرجَمۂ کنزُ الایمان : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا۔ ([ix]) * صاحبِ تفسیرِ فتح الرحمن  مجير الدين بن محمد علیمی مقدسی حنبلی (وفات : 927ھ) فرماتے ہیں : خاتم النبیین کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری یعنی آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے بعد ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوگیا اور  کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی اور رہا عیسیٰ   علیہ السَّلام   کاتشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    سے پہلے دنیامیں تشریف لاچکے۔ ([x])

اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نُبُوّت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])   پ22، الاحزاب:40

([ii])   تاویلات اہل السنۃ،8/396، تحت  الآیۃ:40

([iii])   زاد المسیر،6/393، تحت الآیۃ: 40

([iv])   تفسیر قرطبی،جز14، 7/144، تحت الآیۃ:40

([v])   تفسیر خازن،3/503، تحت الآیۃ:40

([vi])   اللباب فی علوم الکتاب،15/558، تحت الآیۃ: 40

([vii])   پ11، التوبۃ:128

([viii])   نظم الدرر،6/112،تحت الآیۃ:40

([ix])   الفواتح الالٰہیہ،2/158، تحت الآیۃ:40

([x])   فتح الرحمٰن،5/370، تحت الآیۃ:40


Share

Articles

Comments


Security Code