Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Al Qasas Ayat 33 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(49) | Tarteeb e Tilawat:(28) | Mushtamil e Para:(20) | Total Aayaat:(88) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1585) | Total Letters:(5847) |
{قَالَ رَبِّ: موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عصا اور روشن نشانیوں کے ساتھ فرعون اور ا س کی قوم کی طرف رسول بن کر جانے کا حکم ہوا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، فرعونیوں میں سے ایک شخص میرے ہاتھ سے مارا گیا تھا، تو مجھے ڈر ہے کہ ا س کے بدلے میں وہ مجھے قتل کردیں گے۔(تفسیرکبیر، القصص، تحت الآیۃ: ۳۳، ۸ / ۵۹۶، جلالین، القصص، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۳۰، ملتقطاً)
{وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا: اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے۔} حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بڑے بھائی تھے اور بچپن میں فرعون کے ہاں انگارہ منہ میں رکھ لینے کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان شریف میں لکنت آ گئی تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ میرے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے تو اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اسے میری مدد کے لئے فرعون اور ا س کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیج تاکہ وہ حق بات کومزید واضح کر کے اور حق کے دلائل بیان کر کے میری تصدیق کرے ، بے شک مجھے ڈر ہے کہ فرعون اور ا س کی قوم کے لوگ مجھے جھٹلائیں گے اور میری دعوت کو قبول نہیں کریں گے ۔( روح البیان، القصص، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۴۰۴، ملتقطاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فصاحت:
اس آیت میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فصاحت اور زبان کی صفائی کا ذکر ہوا، اگرچہ اس سے مراد زبان میں لکنت نہ ہونا اور صحیح صحیح بات کرنا ہے لیکن لفظ ِ فصاحت کی مناسبت سے یہاں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس کی فصاحت کابیان کیا جاتا ہے ،چنانچہ علامہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک کی فصاحت، کلام میں جامع الفاظ ،انوکھا اظہارِ بیان، حیرت انگیزاحکامات اور فیصلے اتنے زیادہ ہیں کہ شا ید ہی کوئی غورو فکر کرنے والا شخص ان کا اِحاطہ کر سکے ،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کا بیان اور ان کے بیان کازبان کے ساتھ اظہار ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ فصیح اور شیریں بیان دوسرا پیدا ہی نہیں فرمایا۔ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہ تو آپ کہیں باہر تشریف لے گئے اور نہ آپ نے لوگوں میں نشست و بَرخاست رکھی ،پھر آپ ایسی فصاحت کہاں سے لائے ہیں ؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی لغت اور اصطلاح جو ناپید اور فنا ہو چکی تھی،اسے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام میرے پاس لے کر آئے ،جسے میں نے یاد کر لیا ہے۔نیز آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ادب سکھایا تو میرے ادب کو بہت اچھا کر دیا۔
عربیت کا وہ علم جو عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت سے تعلق رکھتا ہے اسے ادب کہتے ہیں ۔( مدارج النبوہ، باب اول در بیان حسن وخلقت وجمال، بیان فصاحت شریف، ۱ / ۱۰)
اور علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس وحیِ الٰہی کی ترجمان اور سر چشمۂ آیات ومَخزنِ معجزات ہے ،اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد ِاِعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فُصحاء و بُلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :)
ترے آگے یوں ہیں دبے لَچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں ، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کی مُقَدَّس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالَمِ وجود میں آ گیا۔ (اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :)
وہ زباں جس کو سب کُن کی کُنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود
اس کی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام
(سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، زبان اقدس، ص۵۷۵-۵۷۶)
آیت ’’وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں کی مدد لینا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد لی۔
(2)… بزرگوں کی دعا سے و ہ نعمت ملی سکتی ہے جو کسی اور سے نہیں مل سکتی، جیسے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے ہے ۔
یاد رہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے یہ عطا فرماتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد اب قیامت تک کسی کو نبوت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ آخری نبی ہیں اور آپ کی آمد پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کاسلسلہ ختم فرما دیا ہے ، البتہ اب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرَّب بندوں کی دعا سے ولایت، علم ،اولاد اور سلطنت مل سکتی ہے۔