Book Name:Himmat Wale Rasool
لکڑیاں دُوں گا۔ ([1])
قوم کی یہ حالت تھی۔ اب اِنہوں نے لکڑیاں جمع کر لِیں، آگ جلا دی گئی۔ یہ بڑی آگ تھی، اِس کے اُوپَر سے کئی کلومیٹر تک پرندے بھی گزر نہیں سکتے تھے، اتنی سخت آگ تھی۔ اب سوچیں کہ ابراہیم علیہ السَّلام کو اِس میں ڈالنا کیسے ہے؟ چنانچہ مَنجَنِیق (یعنی گولے پھینکنے والی توپ نُما مشین) بنائی گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کو اِس میں باندھ دِیا گیا، پِھر باندھ کر آگ کی جانِب اُچھال بھی دیا گیا۔ ([2])
اب ذرا صبر اور ہمّت کا نظارہ کیجیے! حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کو اُچھال دیا گیا، آپ ہَوا میں ہیں، آگ کی طرف بڑھ رہے ہیں، چند ہی لمحوں کے بعد بہت بڑی آگ کے بیچ ہوں گے، اُس وقت حضرت جبرائیلِ امین علیہ السَّلام حاضِر ہوئے، عرض کیا: اے ابراہیم! حاجت ہو تو فرمائیے! فرمایا: حاجت تَو ہے مگر آپ سے نہیں ہے۔ کہا: تَو جس سے ہے، اُسی سے کہیے! فرمایا: وہ دیکھ رہا ہے، کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ ([3])
اللہ اکبر! کیسا صبر ہے، کیسی ہمّت ہے، اللہ پاک پر کیسا عظیم بھروسہ ہے۔ پِھر اس کا نتیجہ بھی دیکھیے! کیسا عظیم مِلا۔ وہ آگ جس کے قریب جانا بھی ممکن نہیں تھا، اللہ پاک نے اس آگ کو ابراہیم علیہ السَّلام کے لیے پُھولوں کا باغ بنا دیا۔
سُبْحٰنَ اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہے صَبْر، یہ ہے ہمّت، یہ ہے اِستقامت...!! نیکی کی دعوت عام کرنی ہو، دِین پر عَمَل کرنا ہو تو ایسی ہمّت، ایسے صبر کی حاجت ہوتی ہے