Book Name:Andhay Sheeshon Mein Chamka Hamara Nabi
سے پہلے کچھ اچھّی اچھّی نیّتیں کر لیتے ہیں، نیت کیجئے!*رضائے الٰہی کے لیے بیان سُنوں گا*بااَدَب بیٹھوں گا* خوب تَوَجُّہ سے بیان سُنوں گا*جو سُنوں گا، اُسے یاد رکھنے، خُود عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد
ثُمامہ بن اُثال کا قبولِ اسلام
حضرت ثُمامَہ بن اُثال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُصحابئ رسول ہیں، یَمَامَہ کے رہنےوالے تھے۔ صحابی بننے سے پہلے آپ اِسْلام کے سخت تَرِین دُشمن تھے، ایک بار انہوں نے رسولِ اکرم، نورِ مُجَّسَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو (مَعَاذَ اللہ !) شہید کر دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ پِھر ان پر کرم ہوا، دولتِ اسلام سے مشرف ہو ئے اور صحابی بن گئے۔ آپ نے اسلام کیسے قبول کیا ہے؟ اِس کا واقعہ بڑا خوبصُورت ہے۔
سِن 6 ہجری کا واقعہ ہے، ہُوا یہ کہ ایک مرتبہ ثُمامَہ بن اُثَال کو قیدی بنا کر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا گیا۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا: اِسے مسجدِ نبوی میں ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ حکم پر فورًا عَمَل ہوا، ثُمامَہ کو سُتون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ ([1])
اَسِیر جس کو بنا کر رکھیں مدینے میں تمام عمر رہائی کی وہ دُعا نہ کرے
اِنہیں مسجد میں سُتُون کے ساتھ ہی کیوں باندھا گیا؟ عُلَمائے کرام نے بڑی پیاری حکمت لکھی، فرماتے ہیں: اِس لیے تاکہ یہ سُتُون کے ساتھ بندھے ہوں، پیارے مَحْبُوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اُٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے، دیکھتے رہیں، دِیدار کے جام پیتے رہیں اور اِن کا دِل روشن ہو