Book Name:اعوذ باللہ Parhnay Ke Fazail
اپنی کمزوری مَعْلُوم ہو جائے (2): اللہ پاک کی قدرتوں پر یقین بیٹھ جائے (3): شیطان مَردُود سے صحیح معنوں میں نفرت ہو جائے تو یقین مانیئے! ہماری زندگی سَنْور سکتی ہے۔
فِرْعَوْن؛ وہ سرکش کافِر جس نے خُدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ مکتبۃُ المدینہ کی کتاب: حکایتیں و نصیحتیں، صفحہ: 373 پر ہے: ایک مرتبہ یُوں ہوا کہ دریائے نیل کا پانی بہت کم ہو گیا، فصلوں کو پانی نہ مِلا، قحط سالی ہو گئی، لوگ بُھوک پیاس سے نِڈھال ہو گئے، آخر سب مِل کر فِرْعَوْن کے پاس آئے اور کہا: اے فِرْعَوْن! ہمارے اَہْل و عیال، مال مویشی سب ہلاک ہوئے جاتے ہیں، اگر تُو واقعی خُدا ہے تو دریائے نیل کو جاری کر دے۔ اب فِرْعَوْن جانتا تو تھا کہ میں خُدا نہیں ہوں، یہ بھی جانتا تھا کہ میں دریا کو جاری نہیں کر سکتا لیکن اب کچھ تو کرنا تھا، ورنہ جو ڈھونگ رچایا تھا، اُس کا بھانڈا پُھوٹ جاتا۔ چنانچہ فِرْعَوْن نے اِس کا ایک حل سوچا، اُس نے اُونِی لباس، بالوں سے بنی ہوئی ٹوپی اور راکھ کی بھری ہوئی ایک تھیلی لی اور بالکل اکیلا ایک وِیران جزیرے کی طرف چلا گیا، وہاں جا کر اُس نے شاہِی لباس اُتارا، اُونی لباس پہنا، سَر پر بالوں کی بنی ہوئی ٹوپی پہنی اور راکھ کو زمین پر بکھیر کر اُس پر لَوٹ پَوٹ ہونے لگا،اُس نےروتے ہوئے سر سجدے میں رکھ کر عرض کیا: اے میرے خالِق و مالِک! میں جانتا ہوں کہ تُو ہی زمین و آسمان کا مالِک ہے لیکن مجھ پر بدبختی غالِب آگئی، میں تیری نافرمانی و سرکشی میں حد سے بڑھ گیا، اے مالِک! مجھے میری قوم میں رُسْوا نہ کر، بےشک تُو بڑا کرم فرمانے والا ہے۔
فِرْعَون ؛بدبخت نے جب یُوں رَبِّ رحمٰن و رَحِیْم کے حُضُور اپنی عاجزی اور محتاجی کا اِظْہار کیا تو دریائے کرم جوش پر آیا اور اللہ پاک نے دریائے نیل کو جاری ہونے کا حکم دے دیا۔([1])