اعوذ باللہ Parhnay Ke Fazail

Book Name:اعوذ باللہ Parhnay Ke Fazail

ہمیں اَعُوْذُ بِاللہِپڑھنا ہی سکھایا ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ بہت ساروں کو اِس کا معنیٰ ہی مَعْلُوم نہ ہو، پڑھتے تو ہیں، جب جب تِلاوت کی سَعَادت ملتی ہے، اَعُوْذُ بِاللہِعمومًا پڑھی ہی جاتی ہے، اِس کا ترجمہ کیا ہے؟ سنیئے!

*اَعُوْذُ کا معنیٰ ہے: میں پناہ میں آتا ہوں۔ کس کی؟

*بِاللہِ :اللہ پاک کی۔ کس دُشمن سے بچنے کے لیے ؟

*مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم :شیطان مَردُود سے۔

مشہور مُفَسِّر ِقرآن مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اَعُوْذُ بِاللہِپڑھنا گویا مَخْلُوق سے خالِق کی طرف لوٹنا ہے اور یہ تَصَوُّف کی پہلی سیڑھی ہے۔ ([1])

یعنی بندہ جب معنیٰ پر نظر رکھ کر دِل کی گواہی کے ساتھ اَعُوْذُ بِاللہِپڑھتا ہے تو وہ گویا اللہ پاک کی بارگاہ میں اِلتجا کر رہا ہوتا ہے: یا اللہ پاک! میں بڑا کمزور سا بندہ ہوں، تُو نے مجھے مٹی سے پیدا فرمایا ہے، یا اللہ پاک! انتہائی سرکش دُشمن میرے پیچھے لگا ہے، اے رَبِّ کریم! میرے اندر مُقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ اے مالِکِ کریم! دُنیا مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے، نفس خواہشات پر اُبھارتا ہے، شیطان اِیْمان چھیننے میں لگا ہوا ہے، اے اللہ پاک! میں نہیں چل سکتا، میں مُقابلہ نہیں کر سکتا، میں کمزور ہوں۔ اے مالِکِ کریم! مجھے اپنی پناہ میں لے لے، تُو ہی ہے، تیرے سِوا کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔

آپ اندازہ لگائیے! یہ کتنی خوبصُورت  سوچ ہے، اَعُوْذُ بِاللہِکے ذریعے بندہ اپنی کمزوری کا اِقْرار بھی کر رہا ہے، اللہ پاک کی قُدْرتوں پر یقین بھی بتا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شیطان سے اِنتہائی نفرت کو بھی ظَاہِر کر رہا ہے۔ یہی 3چیزیں اگر حقیقتاً ہمیں مُیسر آجائیں، یعنی (1): انسان کو


 

 



[1]...تفسیر نعیمی، جلد:1، صفحہ:44۔