Book Name:Ehsas e Kamtari Ki Chand Wajohat o Ilaj

لفظِ رَبّ کا معنی و مفہوم

یاد رکھئے! اس دُنیا میں ہر انسان کی اپنی علیحدہ اہمیت ہے ، اللہ پاک نے ہر ایک کو جُدا جُدا صلاحیات عطا فرمائی ہیں ، اس لئے ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق ہی کامیابی اور ترقی حاصِل کرتا ہے۔ دیکھئے! اللہ پاک ہمارا رَبّ بلکہ رَبُّ العَالمین ہے ، کیا آپ کو مَعْلُوم ہے : رَبّ کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ یہ بڑا حکمت بھرا نکتہ ہے ، اگر ہم لفظِ رَبّ کا معنی سمجھ لیں تو اِحْسَاسِ کمتری والا مسئلہ ہی ختم ہو جائے۔ عَلَّامہ محمود آلوسی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : لفظ رَبّ کا معنی ہے : تَرْبِیَّت کرنے والا اور تربیت کا معنی ہے : تَبْلِیْغُ الشَّیءِ اِلٰی کَمَالِہٖ بِحَسْبِ اِسْتِعْدَادِہِ الْاَزَلِیِّ شَیْئاً فَشَیْئًا یعنی کسی چیز کو اُس کی فطری صلاحیتوں  کےمطابق درجہ بدرجہ مرتبۂ کمال تک پہنچانا۔ ([1])  اب لفظِ رَبّ کا معنی یہ بنے گا : ہر شَے کو اُس کی فطری صلاحیتوں کے مطابق درجۂ کمال تک پہنچانے والا۔

معلوم ہوا اللہ پاک نے ہر شَے کو فطری طَور پر جُدا جُدا صلاحیات عطا فرمائی ہیں اور ہر شَے کو اُس کی صلاحیّتوں کے مطابق ہی کمال تک پہنچاتا ہے۔ مثلاً آم کے درخت پر ہمیشہ آم ہی لگتے ہیں ، آم کے درخت پر اَمْرُود نہیں لگتے ، سیب کے درخت پر سیب ہی لگتے ہیں ، اس پر آم نہیں لگتے ، لہٰذا آم کی گٹھلی سے آم کا درخت نکالنا ، پھر اُس پر آم کا پھل لگا دینا ،  یہ رَبُوبِیَّت ہے۔ ہاں! اگر آم کے درخت پر آم کی جگہ سیب لگ جاتے ہیں تو یہ اللہ پاک کی قُدْرت ہے۔ بہرحال! اس دُنیا میں ہر ایک اپنی فطری صلاحیّتوں کے مُطَابق ہی پروان چڑھتا اور کمال تک پہنچتا ہے۔


 

 



[1]...تفسیرروح المعانی ، پارہ : 1 ، سورۂ فاتحہ ، زیرِ آیت : 1 ، جزء : 1 ، جلد : 1 ، صفحہ : 104۔