Book Name:Ehsas e Kamtari Ki Chand Wajohat o Ilaj

مالِ دنیا دو جہاں میں ہے وبال            کام آئے گا نہ پیشِ ذوالجلال([1])

 اے عاشقانِ رسول ! حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا  کے اس مبارک انداز پر غور فرمائیے! ایک تَو یہ ہے کہ آپ نے قناعت اِختیار فرمائی ، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پسند نہ فرمایا ، دوسرا اِس بات پر غور فرمائیے کہ حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا  کے سامنے جب آپ کی غُربت کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فوراً فرمایا :   اے سفیان! تم نے میرے حال میں کیا کمی دیکھی؟ کیا میں مسلمان نہیں ہوں...؟ اسلام وہ عزت ہے جس کے ساتھ ذِلّت نہیں ، اسلام وہ مالداری ہے جس کے ساتھ محتاجی نہیں۔

اللہ پاک  ہمیں بھی حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہَا کے صدقے ہر وقت نعمتوں کا شُکر  ادا کرتے رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖنَ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔  

نعمتوں کو تَوَجُّہ میں رکھئے...!

آج دُنیا میں غریب تو بہت ہیں ، نادار ، کنگال تو بہت ہیں مگر ایسا غریب شاید ڈھونڈنے  سے بھی نہ مل سکے جو یہ کہتا ہو کہ میرے پاس ایمان کی دولت ہے ، میں بہت بڑا اَمیر ہوں حالانکہ ایمان سب سے بڑی دولت ہے ، اگر مال و دولت کی اہمیت ایمان سے زیادہ ہوتی تو قارُون تباہ و برباد نہ ہوتا ، اگر طاقت ، قُوَّت اور بادشاہت کی اہمیت ایمان سے زیادہ ہوتی تو فرعون غرق نہ ہوتا ، ایمان سب سے بڑی دولت ہے ، ہمیں یہ نایاب دولت حاصِل ہے ، اس کے باوُجُود اپنی ظاہِری غُربت کو دیکھ کر اِحْسَاسِ کمتری کا شِکار ہو جاتے ہیں۔

کاش! ہم بھی اللہ پاک کی دِی ہوئی نعمتوں کو تَوَجُّہ میں رکھنے والے بَن جائیں۔ یقین کیجئے! جتنا ہم اپنی محرومیوں کو سوچتے ہیں ، اتنا ہی اگر اللہ پاک کی دِی ہوئی نعمتوں کو سوچنا


 

 



[1]...وسائل بخشش ، صفحہ : 709-710۔