Book Name:Deeni Talib-e-'Ilm Par Kharch Kijiye

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی بہن بیٹی کی تربیت دِین کے مطابق کریں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں والدین کی سعادت مندی یہ ہے کہ وہ بیٹی کی اچھی تربیت کریں وہیں بیٹی کی سعادت مندی یہ ہے کہ وہ والدین کی جائز خوشیوں کا لحاظ رکھے۔ ان کی خدمت کرے ، ان کی مزاج شناس ہو ، بڑھاپے میں خاص کر ان کی اچھی طرح خدمت کرے۔ اپنی خوشیوں پر والدین کی جائز خوشیوں کو ترجیح دے۔ الغرض ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ جیسا کہ خاتونِ جنت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سعادت مند بیٹی تھیں۔ آپ کی سعادت مندی کی وجہ سے ہی ہم پر کرم ہوا کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے خاتونِ جنت کو ایک تسبیح عطا فرمائی جسے تسبیحِ فاطمہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ،

تسبیحِ فاطمہ

اسلام کے چوتھے خلیفہ ، امیر المؤمنین مولا مشکل کشا حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت میں کچھ قیدی لائے گئے تومیں نے حضرتِ فاطمہ سے کہا کہ  آپ اپنے ابّاجان ، حضوررحمتِ دوجہانصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہو کر کوئی غلام مانگ لائیں کہ وہ کام کاج میں آپ کاہاتھ بٹا سکے ۔ چنانچہ ، آپ شام کے وقت حضورنبیِ  اَکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں توآپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دریافت فرمایا : ’’بیٹی کیا بات ہے ؟آپ نے صرف اتنا عرض کیاکہ سلام کے لئے حاضر ہوئی تھی ۔ حیا کی وجہ سے مزید کچھ نہ کہہ پائیں۔ جب گھر لوٹ کر آئیں تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے پوچھا : کیا ہوا؟کہا : میں حیاکی وجہ سے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے کچھ نہ کہہ