Book Name:Niyyat ki Ahmiyat

جاسکتا ہے ، اِس کا طریقہ بیان کرتے ہوئے میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلِسنّت، مجدِّدِ دین وملّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:ہرمُباح (یعنی ایسا جائز عمل جس کا کرنا نہ کرنا یکساں ہو) نیّتِ حَسَن(یعنی اچّھی نیّت) سے مُستَحَب ہو جاتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ج ۸ ص ۴۵۲) فُقَہائے کرام رحمہم اللہ السلام فرماتے ہیں: مُباحات(یعنی ایسے جائز کام جن پر نہ ثوا ب  ہو نہ گناہ ان) کاحُکم الگ الگ نیّتوں کے اِعتِبار سے مختلف ہوجاتاہے ، اس لئے جب اس سے (یعنی کسی مباح سے )طاعات (یعنی عبادات) پر قُوَّت حاصِل کرنا یاطاعات (یعنی عبادات ) تک پہنچنا مقصود ہو تو یہ( مُباحات یعنی جائز چیزیں بھی ) عبادات ہوں گی مَثَلاً کھانا پینا، سونا، حُصولِ مال اور وَطی    کرنا۔ (اَیضاً ج۷، ص۱۸۹،رَدُّالْمُحتار ج۴ ص۷۵ )

مباح کام میں اچھی نیتیں نہ کرنے والے نقصان میں ہیں

 اگر کوئی مُباح کام بُری نیّت سے کیا جائے تو بُرا ہو جائے گا اور اچّھی نیَّت سے کیا جائے تو اچّھا اور کچھ بھی نیّت نہ ہو تو مُباح رہے گا اور قِیامت کے حساب کی دُشواری دَر پیش ہو گی۔ لہٰذا عقلمند وُہی ہے کہ ہر مُباح کام میں کم از کم ایک آدھ اچّھی نیّت  کرہی لیا کرے ،ہو سکے تو زیادہ نیتیں کرے کہ جتنی اچّھی نیّتیں زیادہ ہوں گی اُتنا ہی ثواب زیادہ ملے گا۔نیّت کا یہ بھی فائدہ ہے کہ نیّت کرنے کے بعد اگروہ کام کسی وجہ سے نہ کر سکا تب بھی نیّت کا ثواب مل جا ئے گا جیسا کہ فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے