تذکرۂ ابنِ جوزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی

مُحدِّث،مُفَسِّر، علّامہ جمالُ الدین ابوالْفَرَج عبدالرحمٰن بن جَوْزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی تاریخِ اسلام کی ایک مایہ ناز شخصیت ہیں۔

ولادت و تربیت آپ کی ولادت 509 یا 510  ہجری کو بغدادمیں ہوئی۔(سیر اعلام النبلاء،ج 15ص483، عیون الحکایات،  مقدمۃ التحقیق،ص4) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی عُمْر ابھی تین سال ہی تھی کہ والد کا انتقال ہوگیا پھر آپ کی پرورش آپ کی پھوپھی نے کی۔(سیر اعلام النبلاء،ج 15ص484)

حصولِ علم کا شوق بچپن ہی سے آپ کو حُصُولِ علم کا شوق تھا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں:6سال کی عمر میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنےکے لئے مکتب میں داخلہ لے لیا تھا، 7سال  کی عمر میں کسی مداری یا شُعْبَدَہ باز کا تماشا دیکھنے کے بجائے جامع مسجد میں ہونے والے دَرْس میں حاضِر ہوتا، وہاں جو بھی احادیث بیان ہوتیں مجھے یاد ہو جاتیں اور گھر جا کرمیں  انہیں  لکھ لیتا، دوسرے لڑکوں کی طرح دریائے دِجْلَہ کے کنارے کھیلنے کے بجائے میں کسی کتاب کاصفحہ لے کرگھر کے ایک گوشےمیں  مطالعہ میں مشغول ہو جاتا۔ (لفتۃ الکبد الی نصیحۃ الولد، ص33 ملخصاً) آپ نے تقریباً 87 علما و مشائخ  سے  علم حاصل کیا۔ (تاریخ الاسلام للذہبی،ج 42ص288)

تصانیف بلند پایہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ تحریر و تصنیف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، چنانچہ آپ  فرماتے ہیں: میری تصانیف 340 سے کہیں زیادہ ہیں جن میں کئی کتابیں 20جلدوں(Volumes)پرمشتمل ہیں۔(الوافی بالوفیات،ج 18ص112) آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تصنیف و تالیف  کا سلسلہ 13 برس کی عمر سے  شروع فرمایا۔(الوافی بالوفیات،ج18ص111) عُلومِ قراٰن و حدیث سمیت کثیر فُنُون میں آپ نے یاد گار تصانیف چھوڑیں۔ دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ العلمیۃ نے آپ کی دو کتابوں ”عُیُوْنُ الْحِکَایَات“ اور”بَحْرُ الدُّمُوْع(بنام آنسوؤں کا دریا) کا ترجمہ کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔

بہترین مقرر وعظ و بیان میں بھی آپ کا شُہْرَہ تھا۔ آپ کی مجلسِ وعظ میں  وُزَراء و خُلَفاء سمیت تقریباً دس ہزار سے  ایک لاکھ تک افراد شریک ہوتے(تذکرۃ الحفاظ للذہبی،ج 4ص93ملخصاً) نیز آپ کے ہاتھ پر  ایک لاکھ  لوگ تائِب ہوئے اور بیس ہزار غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا۔ (تاریخ الاسلام للذہبی ،ج 42ص291 ملخصاً)

علمِ حدیث میں مہارت علمِ حدیث میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی اوریہی علم آپ کی وجہِ شہرت بنا،آپ فرماتے ہیں: میرے زمانے تک رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت شُدہ کوئی بھی حدیث میرے سامنے بیان کی جائے تو میں بتا سکتا ہوں کہ یہ صِحّت و ضُعْف کے کس دَرَجے پر ہے۔

 (الوفا باحوالِ المصطفٰی (مترجم)مقدمہ، ص5)

حدیثِ پاک کا ادب  حدیث پاک کے  ادب کا یہ عالَم تھا کہ حدیث پاک لکھنے میں جو قلم استعِمال فرماتے، ان کے تراشے اپنے پاس محفوظ رکھتے تھےاور آپ نے انتقال کے وقت یہ  وصیت فرمائی کہ میرے غُسل کا پانی لکڑی کے انہی تراشوں سے گَرْم کیا جائے۔ (وفیات الاعیان،ج3ص117)

وصال علم و فَضْل کا یہ  دَرَخْشاں باب 13 رمضان المبارک 597ھ کو بغداد میں شبِ جمعہ کو بند ہوگیا، نمازِ جنازہ جامع منصور بغداد میں اداکی گئی اور تدفین حضرت سیّدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پہلو میں ہوئی۔  آپ کے  انتقال پر ہر طرف سوگ کی سی کیفیت تھی۔ لوگوں کو آپ سے ایسا قلبی تعلّق تھا کہ رَمَضان  کی راتوں میں آپ  کی قبر پر قراٰنِ مجید کے کئی خَتْم کئے گئے۔ (الوافی باالوفیات،ج18ص113،عیون الحکایات، مقدمۃ التحقیق،ص7)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code