ہجرتِ مدینہ

مشرکینِ مکّہ کاظلم وستم  بڑھا تو اہلِ ایمان بارگاہِ رسالت سے اجازت پاکر مکّہ شریف سے مدینۂ منوّرہ ہجرت کرگئے،پھر جب کفّار نے غلبۂ اسلام سے خوف زدہ  ہو کر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےقتل کاناپاک منصوبہ بنایا توبحکمِ الٰہی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی سیّدنا صدیقِ اکبررضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔(سبل الہدیٰ والرشاد،ج3،ص224- 231) کفّار کا سخت پہرا تھا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیّدناعلیکَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کو اپنے بستر پر لِٹاکر سورہ ٔ یٰسین کی آیات تلاوت کرتے ہوئے اُن کفارکے سروں پر مٹی ڈال کر کاشانۂ اقدس سے نکل گئے،حضرت سیّدُنا ابوبکرصدیق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو ساتھ لیااورمکّۂ مکرمہ کی دائیں جانب 4کلومیٹر پر واقع غارِ ثور میں قیام فرما یا۔(سیرۃ ابن ہشام، ص193)

غارِثور میں جلوہ نُمائی:راستے میں سیّدنا صدیق ِاکبر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہکبھی حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے چلتے کہ کہیں کوئی گھات لگانے والا نقصان نہ پہنچادے۔ چلنے میں مبارک انگلیاں دُکھنے لگیں تو انہوں نےآپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو کندھوں پراُٹھالیا اورغارتک لے گئے،پہلے خود داخل ہوئے تاکہ کوئی مُوذی جانور ہو تو مجھے تکلیف پہنچائےاورمیرےآقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم محفوظ رہیں۔(لبابُ الاحیاء،ص160) معلوم ہوا کہ عشقِ  رسول میں جان  بھی قربان کرنی پڑے تو پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ غارِثور میں حضرت سیّدنا عبداللہ بن ابوبکر، حضرت سیّدتنا اسماء اورحضرت سیّدنا عامر بن فَہِیْرہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُم، خبریں پہنچانے،کھانا کھلانے اور دوود ھ پلانے کی خدمت بجا لاتے رہے۔(سیرۃ ابن ہشام، ص194)کفّار آپ کی تلاش میں غارِ ثَور پر بھی پہنچے مگراللہکریم نے محفوظ رکھاجس کا بیان  سورۂ توبہ میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان:بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہواصرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ  ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ (اطمینان) اتارا۔ (پ10،التوبہ:40)غارِ ثور میں تین دن قیام کے بعد سوئے مدینہ روانہ ہوئے۔ سفرِہجرت اور معجزاتِ رسولِ کریم:(1)سیّدناصدیقِ اکبر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی ایڑی پر سانپ نے ڈس لیاتولعابِِ دہن لگانے سے آرام آگیا(2)کفّارسے حفاظت کی خاطرغار کےمنہ  پر”اُمِّ غَیلان “نامی درخت اُگا دیا گیا،دو کبوتروں نے گھونسلا بنا لیا اور مکڑی نے جالا تن دیا(3)سُراقَہ بن مالک (جو بعد میں اسلام لے آئے  تھے) گرفتار کرنے آئے تو اُنہیں زمین نےپکڑ لیا اور(4) اُمِّ مَعْبدکی لاغر بکری کو مبارک ہاتھ لگائے تو(اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ) سارے برتن دودھ سے بھر گئے۔(السیرۃ النبویہ،ج1،ص386تا399) یکم(1st)ربیعُ الاوّل بروز پیر سفرِہجرت کا آغازہوا اور12 ربیعُ الاوّل کو قُبا میں  پہنچے،حضرت کلثوم بن ھِدْم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے یہاں چند دن قیام  فرمایا،(السیرۃ الحلبیہ،ج2،ص72)اسی  دوران مسجدِ قبُا تعمیر فرمائی  جس کی شان و عظمت  پرسورۂ توبہ  کی آیت 108 گواہ ہے۔  قبیلۂ بنوسالم میں پہلا جمعہ ادا فرمایا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج8،ص313) بُرَیْدہ اَسلمی پکڑنے آئے مگر محبتِ رسول کے اسیر ہوگئے اور عرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ!مدینہ میں آپ کا داخلہ جھنڈے کے ساتھ ہوگا، پھرانہوں نے اپنے عمامہ کو جھنڈابنالیا۔(السیرۃ الحلبیہ،ج2،ص71) استقبالِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اہلِ مدینہ روزانہ راستوں پر بیٹھ کرتاجدارِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکاانتظارکیاکرتےتھے،جب آپ نے سرزمینِ مدینہ کو شرفِ قدم بوسی بخشا تو اہلِ مدینہ دیکھتے ہی  پکاراٹھے: اَللہُ اَکْبَر ُ، جَاءَنَا رَسُوْلُاللہِ جَاءَ مُحَمَّدٌیعنی رسول ِ کریم حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لے آئے۔ عورتوں، بچّوں اور کنیزوں نے یوں نعت پڑھی:طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ۔وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٍ یعنی وداع کی گھاٹیوں سے ہم پرچاند طلوع کرآیا،دعا کرنے والے جب تک دعا کریں ہم پر شکر واجب ہے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد،ج3،ص271)نیز مرد،عورتیں چھتوں پر چڑھ گئے جبکہ  بچّے اورغلام گلیوں میں یوں نعرے لگانے لگے: یَا مُحَمَّدُ یَارَسُوْلَ اللہ،یَا مُحَمَّدُ  یَا رَسُوْلَ اللہ۔( مسلم،ص1228،حدیث:7522)

شاہ تم نے مدینہ اپنایا،واہ! کیا بات ہے مدینے کی               اپنا روضہ اِسی میں بنوایا، واہ! کیا بات ہے مدینے کی

میرے آقا مدینے جب آئے، بچّیوں  نے ترانے تھے گائے                        چار سُو خوب  کیف تھا چھایا، واہ! کیا بات ہے مدینے کی

(وسائلِ بخشش مرمم،ص388)


Share