پرندہ پکڑا اور مالک معلوم نہیں تو کیا کریں ؟

کیا بیچا ہوا مال واپس لینا دکاندار پر لازم ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات گاہک کوئی چیز خریدنے کے بعد واپس کرنے آتاہے تو کچھ دکاندارحضرات ایسے ہوتے ہیں جوخوش دلی کے ساتھ واپس لے لیتے ہیں اور کچھ دکاندار حضرات ایسے ہوتے ہیں جو واپس نہیں لیتے ۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ چیز بیچنے کے بعد اگر خریدار وہ چیز پسند نہ آنے کی وجہ سے واپس کرنے آجائے تو کیا دکاندار پر واپس لینا لازم ہےیا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: جب کوئی چیز بیچ دی جائے تو وہ بیچنے والے کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اب اگر خریدار وہ چیز واپس کرنے آئے تو دکاندار پر واپس لینا شرعاً لازم نہیں۔ ہاں اگر اس چیزمیں کوئی عیب پایا گیا تو خریدار واپس کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اس صورت میں دکاندار پر اس چیز کوواپس لینا بھی لازم ہوگا۔ لیکن بغیر کسی عیب کے محض پسند نہ آنے کی بناء پر واپس کرنے کا اختیار نہیں۔ البتہ اگر دکاندارواپس لینے پر راضی ہو تو واپس لے سکتا ہے جیسے بعض گاہگ پرانے یا جان پہچان والے ہوتے ہیں اور ان سے دکاندار چیز واپس لے لیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پرندہ پکڑا اور مالک معلوم نہیں تو کیا کریں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے آسٹریلین طوطا پکڑ کر اس کے پر کاٹ دئیے اب وہ اڑ نہیں سکتا اس نے مجھے یہ کہہ کر دیا کہ آپ نے گھر میں اور بھی طوطے رکھے ہوئے ہیں یہ بھی رکھ لیں جب اس کے پر بڑے ہوجائیں تو آزاد کردیجئے گا۔ میں نے اس نیت سے رکھ لیا کہ جب اس کے پر بڑے ہوجائیں گے تو میں اسے دے دوں گا۔میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اس معاملے میں کیا کیا جائے یہ ایک گمشدہ چیز تھی انہوں نے پکڑ لیا معلوم نہیں ہے کس کا ہے، اب اس کا کیا کریں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا پرندہ ہے جسے لوگ عموماً پالتے نہیں ہیں وہ اڑ کر گھر میں آجاتاہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ جو پکڑلے گا اس کا ہوجائے گاجیسے جنگلی کبوتر یا چڑیا آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں عام طور پر کسی کی مِلکیت نہیں ہوتے اس طرح کے دیگر پرندے جو پکڑے گا وہ اسی کی ملک ہوں گے۔ جبکہ بعض جانور و پرندے وہ ہیں جن کے بارے میں ہمیں پتہ ہےکہ ان کا کوئی نہ کوئی مالک ہے جیسے آسٹریلین طوطے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ یہ عام پرندہ نہیں ہے بلکہ لوگ اسے خرید کر پالتے ہیں اور زیادہ تر یہ پنجروں میں رہتے ہیں کبھی پنجرہ کھلا ہوگاتو یہ اُڑ گیا ہوگا۔ اس کا حکم لقطےوالا ہے کہ اس کی تشہیر کرے اگر مالک مل جائے تو اسے واپس کرے اگر مالک نہ ملے اورظنِ غالب ہوجائے کہ مالک اب اسے تلاش نہ کرتا ہوگا تواسے صدقہ کردے۔ واضح رہےکہ اگر پکڑنے والے نے اس نیت سے پکڑا کہ خود رکھ لے گا مالک تک نہیں پہنچائے گا تو یہ حرام و گناہ ہے اور یہ غاصب قرار پائے گا۔

بہارِ شریعت میں ہے: ”باز یا شکرا وغیرہ پکڑا جس کے پاؤں میں جُھنجُھنی بندھی ہے جس سے گھریلو معلوم ہوتا ہے تو یہ لقطہ ہے اعلان کرنا ضروری ہے۔ یونہی ہرن پکڑا جس کے گلے میں پٹا یا ہار پڑا ہوا ہے یا پالتو کبوتر پکڑا تو اعلان کرے اور مالک معلوم ہوجائے تو اسے واپس کرے۔“ (بہار شریعت،ج 2،ص 482)

لقطہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صَدرُالشَّریعَہ علیہ الرَّحمۃ لکھتے ہیں:”ملتقط پر تشہیر لازم ہےیعنی بازاروں اور شارعِ عام اور مساجد میں اتنے زمانہ تک اعلان کرے کہ ظنِ غالب ہوجائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر تصدق کردے۔“(بہار شریعت،ج 2،ص 482)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا کیسا ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ میں بینک کا کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہاہوں۔ اگر میں چالیس دن کے اندر اس کی ادائیگی کر دیتا ہوں تو سود بھی نہیں دینا پڑتا تو کیا یہ کارڈ میں استعمال کر سکتاہوں؟ یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بینک یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ ادھار میں اشیاء کی خریداری کر سکتے ہیں اور دکان دار کو بینک فوری ادائیگی کرے گا لیکن کارڈ ہولڈر بینک کو جو بھی انتہائی مدت مقرر ہے ،تیس دن یا چالیس دن اس وقت سے پہلے پہلے ادائیگی کرے گا اور مقررہ انتہائی وقت سے پہلے ادائیگی کرنے پر تو کوئی سود لازم نہیں ہوگا لیکن تاخیر سے ادائیگی کرنے پر یومیہ کے حساب سے سود لگنا شروع ہو جائے گا۔ یہ سب باتیں کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فریقین طے کرتے ہیں جب ہی کارڈ جاری ہوتا ہے ۔

پوچھی گئی صورت میں سودی معاہدہ تو آپ کر چکے ہیں کیونکہ کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت آپ بینک سے یہ معاہدہ کرچکے ہیں کہ اگر ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو میں سود ادا کروں گا لہٰذا سود دینے پر رضا مندی تو ثابت ہوچکی ہے اور یہ بھی گناہ ہے۔ مزید یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات لوگ وقت پر کسی وجہ سے ادائیگی نہیں کر پاتے تو پھر بینک سود ڈالنا شروع کر دیتا ہے یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ پہلا گناہ تو اس وقت ہوا جب آپ نے کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فارم پردستخط کیے کہ اگر آپ لیٹ ہوں گے تو سود دینا پڑے گا۔ دوسرا گناہ اس وقت ہوگا جب آپ سود کی ادائیگی کریں گے اور بعض اوقات ایسی نوبت آ بھی جاتی ہے۔ اگر بالفرض یہ نوبت نہ بھی آئے تب بھی کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے کہ اس میں سودی معاہدہ لازمی طور پر کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بجائے ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس میں آپ بینک سے قرضہ نہیں لے رہے ہوتے بلکہ دکان دار کو بینک کے ذریعے اپنے ہی پیسے کی فوری ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں اورڈیبٹ کارڈ میں آپ کو کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

٭…دارالافتاء اہل سنت نور العرفان کھارادر کراچی 


Share

پرندہ پکڑا اور مالک معلوم نہیں تو کیا کریں ؟

مالدار بزرگوں کی سیرت کے مطالعے سے ایک بات یہ پتا چلتی ہے کہ وہ مالدار ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارتے تھے اور غریبوں کی بہت زیادہ مدد کرتے تھے اور ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مدد کرنے کے بعد ان پر احسان جتاتے تھے بلکہ وہ اپنی کمائی میں غریبوں کا حق سمجھتے تھے اور ان کا احسان مانتے تھے کہ انہوں نے ہمارا مال قبول کرلیا اور ان سے شکریہ کی بھی بالکل تمنا نہیں کرتے تھے، چنانچہ قراٰنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:( وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(۱۹)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور ان کے مالوں میں حق تھا منگتا اور بے نصیب کا۔(پ26، الذّٰریٰت:19)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(اس آیت میں) منگتا (سے مراد) وہ (ہے) جو اپنی حاجت کے لئے لوگوں سے سوال کرے اور محروم وہ کہ حاجت مند ہو اور حیاءً سوال بھی نہ کرے۔(خزائن العرفان، ص960 ملخصاً) اس آیتِ مبارکہ سےمعلوم ہوا کہ ان (پرہیزگاروں) کے مال میں غریبوں کا (بھی) حصہ ہوتا ہے اوران کا دینا سائل کے مانگنے پر مَوقوف نہیں، وہ مانگنے والوں کو بھی دیتے ہیں اور تلاش کرکے ان مساکین کو بھی دیتے ہیں جو حیاء اور شرم کی وجہ سے مانگ نہ سکیں۔(صراط الجنان،ج 9،ص493) بھوکوں کو نہ بھول جاؤں: حضرت سیِّدُنا یوسف علیہ السَّلام کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اختیاری بھوک برداشت کرتے تھے حالانکہ آپ کے پاس زمین کے خزانے تھے، آپ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا: مجھے خوف ہے کہ میں پیٹ بھر کر کھاؤں اور بھوکوں کو بھول جاؤں۔(حسن التنبہ لما ورد فی التشبہ،ج 3،ص37) جَو کی روٹی اور نمک: حضرت سیِّدُنا سلیمان علیہ السَّلام کو بے مثل سلطنت و بادشاہت عطا ہوئی تھی، ہَوا آپ کے قابو میں تھی، جناّت آپ کے تابع تھے، دنیا میں سب سے پہلے سمندر سے موتی نکلوانے والے آپ ہیں، لیکن اس کے باوجود جَو کی روٹی اور موٹے پسے ہوئے نمک پر اکتفا فرماتے تھے جبکہ بنی اسرائیل کو میدے یا سفید آٹے کی روٹیاں کھلاتے تھے۔ آپ کے باورچی خانے میں (بنی اسرائیل کے لئے) برتنوں میں پاکیزہ کھاناتیارہوتا تھا۔ (حسن التنبہ لما ورد فی التشبہ،ج 3،ص36،صراط الجنان،ج8،ص397، درمنثور،ج 7،ص189 ملخصاً) امیروں والا کھانا: حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ انتہائی مالدار تھے، لوگوں کو امیروں والا کھانا کھلاتے تھے اور خود جَو کی روٹی، سِرکہ اور زیتون پر گزارہ کرتے تھے۔(حسن التنبہ لما ورد فی التشبہ،ج3،ص37)اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تجارت کے ساتھ ساتھ خوب عبادت کرنے،سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے اور دل کھول کر غریبوں کی مدد کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ 


Share

Articles

Comments


Security Code