جھوٹے کاغذات بنواکر سوسائٹی لانچ کرنا

احکامِ تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2023ء

  ( 1 ) جھوٹے کاغذات بنواکر سوسائٹی لانچ کرنا

سوال : کیافرماتےہیں علمائے کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ بعض حضرات سوسائٹی کےجھوٹے کاغذات بنوا کر سوسائٹی لانچ کر دیتےہیں جب اصل مالک کو پتا چلتا ہےتو وہ کورٹ میں کیس کردیتا ہےاورکورٹ سے اس کے حق میں فیصلہ آجاتا ہےایسی صورتحال میں جس نے جھوٹے کاغذات بنوانے والے بلڈر سے پلاٹ خریدا تھا اسے شریعت کیا تحفظ فراہم کرتی ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں دوسرے شخص کی زمین کو اس کی اجازت کے بغیر بیچ دینا ، ناجائزو گناہ بلکہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے لہٰذا ایسا کرنے والے پر اپنے اس فعل سے توبہ کرنا لازم ہے۔

قانونی طور پر جب زمین کا فیصلہ اصل مالک کے حق میں ہوجائے تو اصل مالک کو اس زمین کو بیچنےوالے  ( Seller )  اور خریدار کے درمیان ہونے والے سودے کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے چاہے تو سودے کو باقی رکھ کر اس زمین کی ادا کردہ قیمت  ( Price )  وصول کرلے اور چاہے تو ان کے درمیان ہونے والے سودے کو فسخ کرکے اپنے مالکانہ حقوق کو باقی رکھے۔

کسی اور کی زمین پر جھوٹے کاغذات بنوانے والے بلڈرز سے پلاٹ خریدنے والوں کو ہر صورت میں ان کی ادا کردہ قیمت  ( Price )  واپس ملے گی ، خریدار چاہیں تو بیچنے والے  ( Seller )  کی رضا مندی سےسودا ختم کرکے اس سے اپنی ادا کردہ قیمت  ( Price )  وصول کرلیں اور چاہیں تو قانونی کاروائی کے ذریعے بیچنے والے سے اپنی اداکردہ قیمت ( Price )  وصول کر لیں۔

غیر کے مال میں بغیر اجازت تصرف کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤ الدین حصكفی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ” لايجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه ولا ولاية “ یعنی : دوسرے شخص کے مال میں اس کی اجازت و ولایت کے بغیر تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ ( درمختار ، 9 / 234 )

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 2 ) جھوٹے کاغذات بنانے کی نوکری کرنا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ِشرع متین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید ایک ایسے شخص کے پاس نوکری کرتا ہے جو لوگوں کو بیرونِ ملک بھیجتا ہے ، زید کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ کمپیوٹر کی مدد سے باہر جانے والے افراد کے ڈاکومنٹس تیار کرتا ہےاور ان تمام افراد کے ڈاکومنٹس میں جائیداد اور کاروبار ظاہر کیا جاتا ہے ، حالانکہ درحقیقت ان لوگوں کے پاس وہ پراپرٹی ، کاروبار اور اتنا اثاثہ نہیں ہوتا یعنی زید کی نوکری جعلی ڈاکومنٹس تیار کرنے پر ہے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ کیا زید کے لیے یہ نوکری کرنا جائز ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : زید کے لئے یہ نوکری کرنا جائز نہیں ، کیونکہ ایسی پراپرٹی اور کاروبار شو کرنا جو درحقیقت ان لوگوں کے پاس ہے ہی نہیں۔ یوں لوگوں کے جھوٹ کو لکھنا گناہ کے کاموں پر معاونت ہے اور ایسی نوکری کرنا جائز نہیں جس میں گناہ کا کام کرنا یا اس پر معاونت کرنا پایا جائے۔

جھوٹ کے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ” اياكم والكذب ، فان الكذب يهدي الى الفجور ، وان الفجور يهدي اِلى النار “ ترجمہ : جھوٹ سے بچو ، کیونکہ جھوٹ فجور  ( یعنی حق بات سے انحراف )  کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔

 ( سنن ابی داؤد ، 4 / 386 ، حدیث : 4989 )

گناہ پر مدد کرنے کی ممانعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے : (وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪-) ترجمۂ کنزُ الایمان : اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ ( پارہ6 ، المآئدۃ : 2 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : ” وہ کام جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے۔۔۔ ایسی ملازمت خود حرام ہے۔ “  ( فتاویٰ رضویہ ، 19 / 515 )

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 3 ) بینک کی نوکری کرنا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ِشرع متین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی نوکری نہ مل رہی ہو تو کیا سودی بینک میں نوکری کرسکتے ہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : ایسی نوکری اختیار کرنا حرام و گناہ ہے جس میں سود کا لین دین کرنا پڑے ، سودی دستاویز لکھنا پڑے ، اس پر گواہ بننا پڑے یا سودی کا م میں معاونت کرنی پڑے۔ لہٰذاسودی بینک کی نوکری میں اگر مذکورہ ناجائز کام کرنے پڑیں گے تو یہ نوکری کرنا حرام ہوگا۔

ہاں اگرسودی بینک کی نوکری ایسی ہو کہ جس میں یہ کام نہ کرنے پڑیں جیسے ڈرائیور یا سیکیورٹی گارڈ کی نوکری تو وہ جائز ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ” لعن رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم اٰکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال ھم سواء “ ترجمہ : رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلّم نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے اور سودی کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔ ( مسلم ، ص663 ، حدیث : 4093 )  

اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرّحمٰن لکھتے ہیں : ” ملازمت اگر سود کی تحصیل وصول یا اس کا تقاضا کرنا یا اس کا حساب لکھنا ، یا کسی اور فعلِ ناجائز کی ہے تو ناجائز ہے۔ “  ( فتاویٰ رضویہ ، 19 / 522 )

کوئی اور نوکری نہ ملنے کا عذر عام طور پر ایک بہانہ ہی ہوتا ہے حالانکہ کم پیسوں میں جائز نوکری مل رہی ہوتی ہے لیکن طبیعت گوارا نہیں کرتی لہٰذا یہ کوئی عذر نہیں۔ بہرحال جائز و حلال ذریعۂ معاش اختیار کرنا ہی لازم ہے۔

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 4 ) قرآن پڑھانے کی اجرت لینا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان ِشرع متین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ میری والدہ بچوں کو گھر پر قرآنِ پاک پڑھاتی ہیں اور وہ اس کی فیس لیتی ہیں۔ کیا ان کا یہ پیسے لینا اور استعمال کرنا ، جائز ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : علمائے متأخرین نے موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے مذہبی شعار کی حفاظت کے پیشِ نظر تعلیمِ قرآن پر اجرت لینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ لہٰذا آپ کی والدہ کا قرآنِ پاک پڑھانے پر اجرت وصول کرنا ، جائز ہے اور اس رقم کو استعمال کرنا بھی جائز ہے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ اجارہ کرنے کی جو بنیادی شرائط ہیں ان کو طے کرتے ہوئے بچوں کے والدین سے معاہدہ کیا جائے۔

اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرّحمٰن لکھتے ہیں : ” قرآنِ عظیم کی تعلیم ، دیگر دینی علوم ، اذان اور امامت پر اُجرت لینا جائز ہے جیساکہ متأخرین ائمہ نے موجودہ زمانہ میں شعائرِ دین اور ایمان کی حفاظت کے پیشِ نظر فتویٰ دیا ہے ، اور باقی طاعات مثلاً زیارتِ قبور ، اموات کے لئے ختمِ قرآن ، قراءت ، میلادِ پاک سید الکائنات علیہ وعلیٰ آلہ افضل الصلوات والتحیات پر اصل ضابطہ کی بنا پر منع باقی ہے۔ “

 ( فتاویٰ رضویہ ، 19 / 495 )

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code