مردِ مؤمن (دوسری اور آخری قسط)

تفسیر قراٰنِ کریم

مردِ مؤمن  ( دوسری اور آخری قسط )

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ فروری 2023

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِۙ ( ۳۰ ) مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْؕ-وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ ( ۳۱ ) )

ترجمہ : اور وہ ایمان والا بولا اے میری قوم ! مجھے تم پر  ( گزشتہ ) گروہوں کے دن جیساخوف ہے ، جیسا نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والوں کا طریقہ گزرا ہے اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں چاہتا۔ ( پ24 ، المؤمن : 30 ، 31 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : جب اپنی قوم کو سمجھانے والے مردِ مؤمن نے دیکھا کہ حکمت و نصیحت ، شفقت و اپنائیت سے اورنہایت معقول طریقےسے سمجھانے کے باوجود حضرت موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کے قتل کا ارادہ رکھنے والے دشمن اپنے ارادے سے پیچھے ہٹتے نظر نہیں آ رہے تو مرد ِ مؤمن نے نہایت مؤثر و مفصل اور جرأت مندانہ انداز میں ماضی کے عبرت ناک حقائق و واقعات اور مستقبل کے خوفناک خدشات پیش کرکے قوم کو سمجھایا۔ قرآنِ مجید میں مردِ مؤمن کے سمجھانے کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔

مردِ مؤمن کاعذابِ دنیا سے ڈرانا : اپنی قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے ہوئے مردِ مؤمن نے کہا : اے میری قوم ! تم جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو جھٹلا رہے ہو اور انہیں شہید کرنے کا ارادہ کئے بیٹھے ہو ، اس وجہ سے مجھے خوف ہے کہ تم پر بھی وہی ہولناک دن نہ آ جائے جو سابقہ قوموں میں سے ان لوگوں پر آیا جنہوں نے اپنے رسولوں علیہمُ السّلام کو جھٹلایا تھا جیسے قومِ نوح ، عاد اور ثمود وغیرہا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا دستور گزر چکا ہے کہ بالآخر منکرین و معاندین کو عذابِ الٰہی نے ہلاک کر دیا اوریہ ہلاک کرنا کوئی ظلم نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بندوں پر ظلم نہیں چاہتا۔وہ مخلوق کو تب ہی عذاب دیتا ہے جب انہیں نبیوں کے ذریعے پہلے پوری طرح سمجھادیا جائے اور لوگ پھر بھی سرکشی سے باز نہ آئیں اور چونکہ تمہیں بھی پوری طرح سمجھادیا گیا ہے لہٰذا اگر اب بھی تم عذاب کو دعوت دینے والی حرکتیں کرو گے تو پھر ضرور تمہیں سزا بھی ملے گی۔

مردِ مؤمن کاعذاب ِ آخرت سے ڈرانا : دنیا کے عذاب سے ڈرانے کے بعد مردِ مؤمن نے قوم کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا  کہ اے میری قوم ! خدا کے نبی علیہ السّلام کو شہید کرکے تم صرف دنیوی عذاب کا شکار نہیں ہوگے بلکہ اس کے ساتھ مجھے تم پر اس دن کے عذاب کا بھی خوف ہے جس دن ہر طرف پکارمَچی ہوئی ہوگی اور اس دن عذاب ِ الٰہی سے تمہیں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا لہٰذا تم اپنے ارادے سے باز آ جاؤ اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لے آؤ۔ میرا کام نصیحت کرنا تھا ، باقی ہدایت دینا خدا کا کام ہے۔

قیامت کے دن کو پکار کا دن کہنے کی وجہ : قیامت کا ایک نام ’’ یَوْمُ التَّنَاد ‘‘ یعنی ’’  پکار کا دن ‘‘ اس لئے ہے کہ اس روز طرح طرح کی پکاریں مچی ہوں گی ، جیسے ہر شخص اپنے حق یا باطل گروہ کے سردار ، پیشوا اورامام کے ساتھ بلایا جائے گا ، نیز سعادت اور شقاوت کے اعلان ہوں گےمثلاً فلاں سعادت مند ہوا ، اب کبھی بد بخت نہ ہوگا اور فلاں بدبخت ہوگیا۔ اس کے علاوہ جنتی دوزخیوں کو اور دوزخی جنتیوں کو پکاریں گے وغیرہا۔

مردِ مؤمن کاقوم کو ماضی یاد کرانا : دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرانے کے بعد مرد ِ مؤمن نے لوگوں کو ان کا ماضی یاد کرایا کہ خدا کے نبیوں کے متعلق شک و انکار کاتمہارا رویہ نیا نہیں بلکہ تمہارے باپ دادا سے چلا آرہا ہے اور یہ انکار ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوا ہے ، چنانچہ اس نے کہا : اے مصر والو ! حضر ت موسیٰ علیہ السّلام سے پہلے تمہارے آباؤ اَجداد کے پاس حضرت یوسف علیہ السّلام روشن نشانیاں لے کر آئے تو تمہارے بڑے ان کے لائے ہوئے سچے دین کے متعلق شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب حضرت یوسف علیہ السّلام دنیا سے تشریف لے گئے ، پھر تمہارے باپ دادا نے کہا : اب اللہ تعالیٰ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ یہ بے دلیل بات تمہارے پہلے لوگوں نے اس لئے گڑھی تاکہ وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بعد آنے والے انبیاء علیہمُ السّلام کوجھٹلاسکیں اور یوں وہ کفر پر قائم رہے اور ہوتا یہ ہے کہ ان کا طرزِ عمل اپنانے والوں کے دِلوں پر مہر لگ جاتی ہے۔

مردِ مؤمن کی گفتگو پر فرعون کی چالبازی : فرعون نے جب دیکھا کہ یہ مردِ مؤمن توایسی جان دار گفتگوکررہاہےکہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہورہے ہیں تواس نے موضوع ہی تبدیل کردیااورلوگوں کوبیوقوف بنانے کیلئے اپنے وزیر ہامان سے کہنے لگاکہ میرے لیے آسمان کے راستوں تک ایک اونچامحل بناؤ ، میں اس پر چڑھ کر دیکھوں گا ، شاید میں آسمان پر جانے والے راستوں تک پہنچ جاؤں اور وہاں جا کر حضرت موسیٰ  علیہ السّلام کے خداکو جھانک کر دیکھوں ، میرے گمان کے مطابق میرے علاوہ کسی اور خداکے وجود کا دعویٰ کرنے میں موسیٰ علیہ السّلام جھوٹے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب فرعون کی ڈرامے بازی تھی اور شیطان نے اسے بے وقوف بنایا ہوا تھا۔

مردِ مؤمن کی دعوتِ اتباع : جب مردِ مومن نے دیکھا کہ فرعون کوئی معقول جواب نہیں دے سکا تو ا س نے دوبارہ اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تم فرعون کی بجائے میری پیروی کرو میں تمہیں بھلائی اورنجات کا راستہ دکھاؤں گاکیونکہ ہدایت توانبیاءِ کرام علیہمُ السّلام کی پیروی میں ہی ہے اور اولیاءِ عظام رحمۃُ اللہ علیہم کی پیروی بھی اسی اتباع کا دوسرا نام ہے۔ آیت نمبر 38 میں مذکور لفظ ’’ سَبیل الرَّشاد ‘‘ ہی سے لفظِ مرشِد  ( رہنما ) بنا ہے۔

 مردِ مؤمن کا دنیا کی فنائیت اور آخرت کا حساب یاد دلا کر نصیحت کرنا : مردِ مؤمن نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا : اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی توتھوڑی مدت کا ایک ناپائیدار سامان ہے جس کو بقا نہیں بلکہ یہ ضرور فنا ہو جائے گی جبکہ آخرت کی زندگی باقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور یہ فانی زندگی سے بہتر ہے۔ جو دنیا میں برا کام کرے تو اسے اس برے کام کے حساب سے آخرت میں بدلہ ملے گااور جو مرد و عورت دنیا میں رضائے الٰہی والا اچھا کام کرے اور اس کے ساتھ وہ مسلمان بھی ہوکیونکہ اعمال کی مقبولیت ایمان پر مَوقوف ہے ، تو انہیں جنت میں داخل کیاجائے گا جہاں وہ بے حساب رزق پائیں گے اور نیک عمل کے مقابلے میں زیادہ ثواب عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے۔

مردِ مؤمن کااپنے دردِ دل کا اظہار : اپنی قوم کو نصیحت کرتے وقت مردِ مومن نے محسوس کیا کہ لوگ میری باتوں پر تعجب کر رہے ہیں اور میری بات ماننے کی بجائے الٹا مجھے اپنے باطل دین کی طرف بلانا چاہتے ہیں تو اس نے اپنی قوم کو مُخاطَب کرکے کہا : تم عجیب لوگ ہو کہ میں تمہیں ایمان کی دعوت دے کرنجات و جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے کفر و شرک کی دعوت دے کر عذاب و جہنم کی طرف بلا رہے ہو۔ میں تمہیں ایمان کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے شرک کی طرف۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہو ں جو دائمی عزت والا اور نہایت بخشنے والا ہے جبکہ تم مجھےاس جھوٹے معبود کی بندگی کی طرف بلا رہے ہوجس کی عبادت دنیا و آخرت میں کہیں کام نہ آ ئے گی۔

محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بِینا دے

دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دے

مردِ مؤمن کی تقریر کا اختتام اور خدا پر کامل بھروسہ : مردِ مؤمن نے اپنی ایمان افروز ، فکر انگیز ، مشفِقانہ و ناصحانہ گفتگو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ میری باتیں ابھی توتمہارے دل پر اثر اندازنہیں ہورہیں لیکن عنقریب جب تم پر عذاب نازل ہو گا تو اس وقت تم میری نصیحتیں یاد کرو گے مگراس وقت کا یاد کرنا کچھ کام نہ دے گا۔ یہ سن کر ان لوگوں نے اس مؤمن کو دھمکی دی کہ اگر تم ہمارے دین کی مخالفت کرو گے تو ہم تمہارے ساتھ برے طریقے سے پیش آئیں گے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا : میں اپنا معاملہ اللہ کو سونپتا ہوں ، بیشک اللہ بندوں کو دیکھتا ہے اور ان کے اعمال اوراحوال کو جانتا ہے ، لہٰذا مجھے تمہارا کوئی ڈر نہیں۔

مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش

خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند

مرد ِ مؤمن کے لئے خاص تائیدِ الٰہی کا ظہور : مردِ مؤمن نے فرعونیوں کی دھمکی کی پروا نہ کی اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیااور خدا نے اپنے اس کامل و متوکل بندے کی خصوصی مدد فرمائی اور جب فرعونیوں نے مرد ِمومن کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے جرأت و بہادری کے پیکر ، اُس مردِ حق کو ان کے شر سے بچا لیاجبکہ اسے دھمکانے والوں کا انجام یہ ہوا کہ انہیں بدترین عذاب نے گھیر لیا اور وہ فرعون کے ساتھ دریا میں غرق ہوگئے اور قیامت کے دن جہنم میں جائیں گے۔

نیکی کی دعوت کے متعلق چند اَسباق :  ( 1 ) حق گو مبلغ ، زمانہ شَناس ، قوم کی ذہنی سطح سمجھنے والا ہوتا ہے اور اِسی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے اندازِ بیاں کو اِجمال سے تفصیل کی جانب پھیرتا اور کلام میں تنوع پیدا کرتا ہے۔ ( 2 ) صدائے حق بلند کرنے والا تنہا بھی ہو تب بھی اس کا خدا پر توکل و اعتماد اس میں ہمت و حوصلہ پیدا کرکے ہزاروں کا مقابلہ کروا دیتا ہے۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

 ( 3 ) حق پرست کبھی بھی بزدلی کا شکار نہیں ہوتا ، خواہ فرعونِ وقت اپنے پورے زور سے دھمکائے کیونکہ خدا پر توکل اور اپنے معاملات خدا کے سپرد کرنا مشکل حالات کے ڈر دور کرتا اور شریر دشمن کے خوف سے بچاتا ہے۔

دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے

وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ’لَاتَذَر‘ میں

عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے

نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے

(  4 ) تبلیغِ دین میں انبیاءِ کرام علیہمُ السّلام کے واقعات کا بیان اور قبر و آخرت کی فکر دلانا نہایت مؤثر ہے۔ صرف فلسفے بگھارنے سے قوموں کی اصلاح نہیں ہوتی۔ ( 5  ) مبلغ کے لئے تاریخ ِ عالم پر نظر رکھنا بہت مفید ہے۔ واقعاتِ عالم کو اپنی تبلیغ میں مؤثر انداز میں پیش کرنا دعوت وبیان کے انتہائی اعلیٰ اَسالیب میں سے ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code