صحابی وتابعی رضی اللہُ عنہما

اپنےبزرگو ں کو یادرکھئے

*مولانا ابو ماجد محمد شاہد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2023ء

رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عُظَّام اور عُلَمائے اسلام کا یومِ وصال یا عرس ہے ، ان میں سے80کا مختصر ذکر ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ رجب  المرجب1438ھ تا1443ھ کے شماروں میں کیاجاچکا ہے ، مزید 13 کا تعارُف ملاحَظہ فرمائیے :

صحابی وتابعی  رضی اللہُ عنہما :

  ( 1 ) حضرت ابوعمرمعاویہ بن معاویہ مُزَنی  رضی اللہُ عنہا یسے صحابی ہیں جو دن رات کثرت سے سورۂ اخلاص  ( قُلْ هُوَ اللهُ اَحَد )  کی تلاوت فرماتے تھے ، جب نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رجب 9ھ کوغزوۂ تبوک کے لئے تشریف لے گئے تو مدینۂ منورہ میں ان کا وصال ہوگیا ، تبوک میں حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے آپ کی وفات   کی خبردی اور   ان پر نمازِ جنازہ پڑھانے کی عرض کی ، زمین سکیڑ دی گئی اور ان کا جنازہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بلند کیا گیا تو آپ   نے نمازِ جنازہ پڑھائی جس میں فرشتوں کی دوصفوں نے بھی نمازِ جنازہ پڑھی ہر صف میں 1000 فرشتے تھے جبکہ ایک روایت میں ہے کہ ہر صف میں 60ہزار فرشتے تھے۔  [1]

 ( 2 ) تابعی بزرگ حضرت سیّدنا اَصْحَمَہ بن اَبحر نجاشی رضی اللہُ عنہ حبشہ کے حکمران تھے ، صحابۂ کرام ہجرت کرکے حبشہ پہنچے تو انہوں نے ہر طرح سے مدد و نصرت فرمائی اور اسلام قبول کرلیا ، ماہِ رجب 9ھ میں ان کا وصال ہوا ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام کے ساتھ مِل کر نمازِ جنازہ ادا فرمائی اور انہیں مردِ صالح کے وصف سے یاد فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : حضرت نجاشی کے انتقال کے بعد ہمارے درمیان اس بات کا چرچا تھا کہ ان کی قبر پر ہمیشہ نور دکھائی دیتا ہے۔[2]

اولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام :

 ( 3 ) قطبُ الاقطاب حضرت خواجہ سیّد ناصرالدین ابویوسف حسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 362ھ کو چشت میں ہوئی اور یہیں 3رجب459ھ کو 97سال کی عمر میں وفات پائی ، آپ نجیبُ الطّرفین سیّد ، حافظُ القراٰن اور محبُّ الْفُقَراء تھے ، آپ سے کثیر کرامات کا صدور ہوا۔[3]

 ( 4 ) مخدومُ العالَم ، گنج نبات حضرت شیخ عمر علاءُ الدّین لاہوری ثم پنڈوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 701ھ میں لاہور میں ہوئی ، آپ اپنے وقت کے عالم و فاضل ، مفتی و فقیہ ، نحوی و صرفی ، صوفی و ولی اور خطیب و داعی تھے ، آپ کا وصال یکم رجب 800ھ کو پنڈوہ شریف مالدہ مغربی بنگال ہند میں ہوا ، یہیں مزارِ مبارک ہے ، آپ کی خانقاہ مرکزِ علم و عرفان تھی ، آپ مرجعِ خاص وعام تھے۔[4]

 ( 5 ) پیرِطریقت حضرت سیّد شاہ معینُ الدّین گیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ مشہور ولیُّ اللہ حضرت جمال البحر گیلانی ورنگلی رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے ، عابد و زاہد اور صاحب تصرفاتِ ظاہر و باطن تھے ، آپ کا وصال 22رجب999ھ کو ہوا ، مرقد و موضعِ عُرس دکن ہند میں ہے۔[5]

 ( 6 ) باکرامت ولیُّ اللہ حضرت سیّد ملوک شاہ دہلوی قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش دہلی  ( ہند )  کے سادات گھرانے میں ہوئی اور 17رجب1174ھ کو بہاولپور میں وصال فرمایا ، مزار بہاولپور چھاؤنی کے تاریخی قبرستان ملوک شاہ میں ہے ، آپ عالمِ دین ، قادریہ سلسلے کے شیخِ طریقت اور مستجابُ الدّعوات تھے۔[6]

 ( 7 ) شیخُ الکبیر عارف بِاللہ حضرت شیخ سیّد محمد علی ظَبْیان گیلانی دِمَشْقی رحمۃُ اللہِ علیہ عالم ، فاضل ، قاضیِ وقت ، جہرُ الصوت ، شجاع و سخی ، مرجعِ خاص و عام سلسلہ قادریہ کے مرشدِ کامل ، صاحبِ کرامات اور مشہورِ زمانہ مشائخ میں سے ہیں۔ آپ نے 10رجب 1288ھ کو وصال فرمایا اور تدفین دمشق میں ہوئی۔[7]

 ( 8 ) حضرت میاں فیض بخش چشتی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1240ھ کو سلارہ  ( نزد چنیوٹ ، پنجاب )  میں ہوئی اور 24رجب 1339ھ کو وصال فرمایا ، مزار اسی جگہ ہے جہاں آپ پیدا ہوئے تھے۔ آپ حافظِ قراٰن ، عالمِ دین ، مرید و خلیفہ پیر سیال خواجہ شمسُ العارفین ، ظاہری و باطنی نعمتوں سے مالا مال ، شریعت و طریقت کے جامع اور اخلاقِ حسنہ کے مالک تھے۔[8]

 ( 9 ) حضرت پیر سیّد فضل شاہ گیلانی اویسی رحمۃُ اللہِ علیہ 1283ھ کو خاندانِ سیّد بہاول شیر قلندر کی دارا پوری شاخ  ( دارا پور جہلم )  میں پیدا ہوئے اور 20رجب 1352ھ کو پڑتھ  ( سیالکوٹ )  میں وصال فرمایا ، مزار آبائی قبرستان ملہو سنگھوئی  ( جہلم )  میں ہے۔ آپ عابد و زاہد ، درویش صفت شخصیت کے مالک تھے۔[9]

علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام :

 ( 10 ) استاذُالعلماء مولانا محمدغوث چشتی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1229ھ میں کالوپنڈ  ( نزد حسن ابدال ، ضلع اٹک )  میں ہوئی اور 25 رجب1302ھ کو وصال فرمایا ، تدفین وہیں ہوئی جہاں پیدا ہوئے تھے ، آپ عالمِ دین ، استاذ درسِ نظامی اور علمِ ظاہری و باطنی سے خوب آراستہ تھے ، اپنے گاؤں میں درس و تدریس میں مصروف رہتے تھے ، بے شمار طلبۂ علمِ دین نے اِسْتفادہ کیا۔[10]

  ( 11 ) عالم پوٹھوہار حضرت مولانا مفتی باغ علی چشتی رحمۃُ اللہِ علیہ 1309ھ کو پٹیالی  ( تحصیل گوجرخان ، ضلع راولپنڈی )  کے علوی گھرانے میں پیدا ہوئے اور یہیں 15رجب1397ھ کو وصال فرمایا۔ آپ مشہور پنجابی شاعر عبدالرحمٰن عبدل کے والدِ محترم ، جید عالمِ دین ، مدرسِ درسِ نظامی ، مریدِ قبلۂ عالَم پیر مہر علی شاہ اور مُصنّفِ کُتب ہیں۔[11]

 ( 12 ) استاذُ الوقت حضرت مولانا سیّد عینُ القضاۃ حسینی حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1274ھ کو حیدرآباد دکن کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور  رجب1343ھ  کو لکھنؤ  ( یوپی )  ہند میں وصال فرمایا ، تدفین مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں ہوئی ، آپ علّامہ عبدُالحّی فرنگی محلی کے اہم شاگرد ، علومِ معقول و منقول کے ماہر عالمِ دین ، تجوید و قراءتِ قراٰن میں مدرسہ فرقانیہ کو عروج تک لے جانے والے ، نقشبندیہ سلسلے کے صوفی بزرگ ، زہد و تقویٰ کے پیکر اور ہر سال عید میلادُ النبی پر وسیع کھانے کا اہتمام کرنے والے تھے۔[12]

 ( 13 ) شیخُ الحدیث راجستھان حضرت علّامہ عبدُالحق نقشبندی رحمۃُ اللہِ علیہ ڈین بائی موضع ڈیمبہ راجستھان ہند میں پیدا ہوئے اور 24 رجب 1402ھ کو وفات ہوئی ، مزار کاچھیلا  ( راجستھان )  میں ہے۔ آپ فاضل دارُالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف ، شاگرد محدثِ اعظم علّامہ سردار احمد ، مدرس و شیخُ الحدیث دارُالعلوم فیض اکبری لُونی شریف اور استاذُ العلماء تھے۔[13]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ



[1] اسد الغابۃ ، 5 / 226

[2] الاصابۃ ، 1 / 348

[3] تحفۃ الابرار ، ص55-اقتباس الانوار ، ص297

[4] آئینہ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان احوال وآثار ، ص255تا273

[5] تذکرۃ الانساب ، ص108

[6] انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام ، 1 / 314

[7] اتحاف الاکابر ، ص532

[8] فوزالمقال فی خلفائےپیرسیال ، 7 / 214تا233

[9] تاریخ جہلم ، ص698

[10] تذکرۂ عُلماء اہلسنت ضلع اٹک ، ص79

[11] ماہنامہ معارف رضا ، سالنامہ2007ھ ، ص222

[12] ممتاز علمائے فرنگی محلی لکھنؤ ، ص331-تذکرۂ علمائے حال ، ص  104

[13] تذکرۂ ساداتِ لُونی شریف وسوجا شریف ، ص446 ، 478تا 485۔


Share