بے مثال ولادتِ مبارک

اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل و خصائص کا لکھنا، پڑھنا اور سننا سنانا بہت بڑی سعادت اور ایک عمدہ عبادت ہے۔ قدیم زمانے سے علمائے کرام رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کے دیگر پہلوؤں کی طرح آپ کے فضائل و خصائص پر مشتمل کتابیں بھی تصنیف فرماتے رہے۔ سیرت اور حدیث کی جن کتابوں میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےخصائص سے متعلق باب (Chapter) قائم کئے گئے ان کی مکمل تعداد بیان کرنا تو مشکل ہے، البتہ مستقل طور پر خصائصِ مصطفےٰ کے موضوع پر کتابیں لکھنے والے علمائے کرام اور ان کی کتابوں میں سے کچھ کے نام درج کئے جاتے ہیں تاکہ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے:(1)نِہَایَۃُ السُّوْل فی خَصَائِصِ الرَّسُوْل،امام عمر بن حسن ابنِ دِحیۃ رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:633ھ) (2)شِفَاءُ الصُّدُوْر فِی اِعْلاَمِ نُبُوَّۃِ الرَّسُوْل وَخَصَائِصِہٖ، امام سلیمان بن سَبْع سَبْتی رحمۃ اللہ علیہ (3)بِدَایَۃُ السُّوْل فِی تَفْضِیْلِِ الرَّسُوْل،سلطانُ العلماء عِزُّ الدِّین بن عبدالسلام سُلَمی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:660ھ) (4)اَللَّفْظُ الْمُکَرَّم بِخَصَائِصِ النَّبِیِّ الْمُحْتَرَم، امام قطب الدّین محمد بن محمد خَیْضَری شافعی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 894ھ) (5 اور 6) امام جلال الدّین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:911ھ) نے پہلے کِفَایَۃُ الطَّالِبِ اللَّبِیْب فی خَصَائِصِ الْحَبِیْب (اَلْخَصَائِصُ الْکُبْریٰ) تحریرفرمائی جس میں خصائصِ مصطفےٰ کو دلائل کے ساتھ ذکر فرمایا اورپھر بعد میں اُنْمُوْذَجُ اللَّبِیْب فی خَصَائِصِ الْحَبِیْب (اَلْخَصَائِصُ الصُّغْریٰ) لکھی جس میں دلا ئل کو ترک کرکے صرف خصائص ذکر فرمائے (7اور8)امام محمد عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1031ھ) نے فَتْحُ الرَّؤُوفِ الْمُجِیْب اور تَوْضِیْحُ فَتْحِ الرَّؤُوفِ الْمُجِیْب کے نام سے اُنْمُوْذَجُ اللَّبِیْب کی دو شُروحات تحریر فرمائیں (9)اَلْاَنْوَار بِخَصَائِصِ النَّبِیِّ الْمُخْتَار، شیخ الاسلام حافظ ابن حَجَرعَسْقَلانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 852ھ) (10)غَايَةُ السُّوْل فِي خَصَائِصِ الرَّسُوْل،امام سراج الدّين عمر بن مُلَقِّن رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:804ھ) (11)علّامہ محمد بن علی بن عَلَّان صدیقی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1057ھ) نے امام جلال الدّین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی اُنْمُوْذَجُ اللَّبِیْب کے کچھ حصے کو فَتْحُ الْقَرِیْبِ الْمُجِیْب کے نام سے منظوم(یعنی اشعار کی) صورت میں ڈھالنے کے بعد شَرْحُ الْخَصَائِص کے نام سے اس کی شرح فرمائی۔

8خصائص ِمصطفٰے کا مدنی گلدستہ

(1)اللہ  کریم نے دنیا میں بھیجنے سے پہلے تمام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے عہد لیا کہ اگر وہ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا زمانہ پائیں تو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں۔(زرقانی علی المواہب،ج7،ص187)

اللہ  پاک نے قراٰنِ کریم میں اس عہد کا ذکر یوں فرمایا ہے: ( وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱)) ترجمۂ کنزُالایمان: اور یاد کرو جب اللّٰہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔(پ3،اٰلِ عمرٰن: 81)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ([1])

اس عَہْدِ رَبّانی کے مطابق ہمیشہ حضراتِ انبیاء علیہم الصَّلٰوۃ وَالثناء نشرِمناقب وذکرِ مناصبِ حضور سَیِّدُ الْمُرْسَلِین صلٰوۃ اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین سےرَطْبُ اللِّسَان رہتے (یعنی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل و مناقب کے بیان سے اپنی زبانوں کو تر رکھتے ) اور اپنی پاک مبارک مجالس ومحافل ملائک منزل (یعنی وہ برکت والی محفلیں جن میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ان) کو حضور کی یاد ومدح سے زینت دیتے اوراپنی امتوں سے حضورپُرنور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پرایمان لانے اور مدد کرنے کا عَہد لیتے۔(فتاویٰ رضویہ،ج30،ص135)

لیا تھا روزِ میثاق انبیا سے حق تعالیٰ نے

تمہاری پیروی کا عہد و پیماں یارسولَ اللہ

(2)اللہ کریم نے حضرت سیّدُنا آدم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کو پیدا کرنے کے بعدآپ کی پیٹھ سے قیامت تک پیدا ہونے والی آپ کی ا ولاد کو نکال کر ان سے اپنے رب ہونے پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا۔ اس عہد کے موقع پر سب سے پہلے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بَلٰی (یعنی کیوں نہیں، تُو ہمارا رب ہے) فرمایا تھا۔(زرقانی علی المواہب،ج 1،ص66،ج7،ص186)

قراٰنِ کریم میں اس مبارک عہد کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ( وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ-قَالُوْا بَلٰىۚۛ-شَهِدْنَاۚۛ-اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ(۱۷۲))

ترجمۂ کنزالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔(پ9،الاعراف:172)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(3)حضرت سیّدُنا آدم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے لے کر سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ ماجد تک اور حضرت حواء رضی اللہ عنہا سے لے کر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نسب شریف بدکاری سے پاک و صاف رہا ۔(زرقانی علی المواھب ،ج 7،ص188،خصائص کبریٰ،ج1،ص64)

(4)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدینِ کریمین کو زندہ کیا گیا اور وہ آپ پر ایمان لائے۔(انموذج اللبیب،ص32)

(5)اللہ کےحبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ختنہ کئے ہوئے، ناف بُرِیدہ (یعنی ناف کٹی ہونے کی حالت میں) اور ہر قسم کی گندگی و آلودگی سے پاک و صاف پیدا ہوئے۔(کشف الغمۃ،ج 2،ص63)

(6)پیدا ئش کے وقت آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حالتِ سجدہ میں تھے اور دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔(زرقانی علی المواہب،ج1،ص211)

(7)ولادتِ اقدس کے وقت بُت گِرگئے۔(کشف الغمۃ،ج 2،ص63)

(8)سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت سے پہلے جنّات آسمانوں تک جاتے اور فرشتوں کی باتیں سنا کرتے۔ فرشتوں کو جو احکام پہنچےہوتے اور وہ آپس میں تذکرہ کرتےتو جنّات چوری سے سُن آتے اوراس میں کئی جھوٹ ملا کر کاہنوں سےکہہ دیتے،جتنی بات سچی ہوتی وہ واقع ہوجاتی۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کے بعد اس کا دروازہ بند ہوگیا، آسمانوں پر پہرے بیٹھ گئے، اب جنّات کی طاقت نہیں کہ سننے جائیں، جو جاتا ہے فرشتے اسے آگ کا شعلہ مارتے ہیں جس کا بیان قرآنِ کریم کی سورۂ جنّ آیت نمبر 9 میں ہے۔(صراط الجنان،ج8،ص129، تاریخ الخمیس،ج1،ص391)

کَہانت کے دفتر پہ آئی تباہی ملائک کا پہرہ ہوا چاہتا ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی



[1]۔۔۔امام علامہ تَقِیُّ الْمِلَّۃِ وَالدِّیْن ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک نفیس رسالہ ”اَلتَّعْظِیْمُ وَالْمَنَّۃ فِی لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنَّہ“ لکھا۔(فتاویٰ رضویہ،ج30،ص137)


Share

Articles

Comments


Security Code