کیا اسلام صرف خدمتِ خلق کا نام ہے؟

آج کل لفظوں میں خیانت عام ہے کہ اچھے الفاظ، بُرے مقصد کے لئے بولے جاتے ہیں جیسے دینی تعلیمات سے بیزار لوگ”روشن خیالی“ کا لفظ قرآن وحدیث کی تعلیمات کو تاریکی سمجھتے ہوئے اور اسلام مخالف طرزِ عمل کو روشنی قرار دیتے ہوئے بولتے ہیں حالانکہ یہ سراسر باطل ہے۔  کچھ ایسا ہی معاملہ اس جملے کا ہے کہ’’اسلام تو صرف خدمتِ خلق کا نام ہے‘‘۔ فی نفسہٖ خدمتِ خلق بہت عمدہ و اعلیٰ عمل ہے اور دین ِ اسلام میں اس کی بہت اہمیت و فضیلت ہے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی،غریبوں کی مدد،یتیموں پرشفقت،مصیبت زدہ کی حاجت روائی اور مخلوق ِ خدا کی پریشانیاں دُور کرنا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلیٰ درجے کی سنّت ہے اور قرآنِ مجید میں اِس عظیم کام کی بہت تاکید فرمائی گئی ہے لیکن علم ِ دِین سے دور، عبادت سے غافل اوردِینی تعلیمات مسخ کرنے والے لوگ یہ جملہ اس مقصد کےلئے استعمال کرتے ہیں کہ صرف خدمت ِ خلق ضروری ہے اور بقیہ احکامِ دین مثلاً نماز، روزہ، حج و عمرہ، تلاوت و ذکر اورفکرِ آخرت کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ ایسے لوگ عموماً انسانی حقوق وغیرہ کا لفظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں جبکہ عبادت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو بندے اور خدا کا معاملہ ہے، خدا چاہے گا تو معاف فرمادے گا، لہٰذااِن کی اتنی فکرکرنے اوران کی طرف دعوت دینے کی حاجت نہیں بس انسانیت ہونی چاہیے انسانیت۔ بعض توایسے بےباک ہوتے ہیں کہ وہ اسلامی احکام کو بھی صرف خدمتِ خلق کا ذریعہ قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ نماز تو صرف ڈسپلن سکھانے کےلئے ہے اور روزہ صرف بھوکوں سے ہمدردی کا احساس پیدا کرنے کےلئے ہے اورزکوٰۃ صرف غریبوں کی مدد کے لئے ہے وغیرہا حالانکہ یہ سب چیزیں دِین کی حکمتوں میں سے چند حکمتیں ضرور ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی مقصود ہے بلکہ ان میں حکم ِ الٰہی پر عمل، بندگی کا اظہار، خدا سے قلبی تعلق،رِضائے الٰہی کےلئے جان و مال و وقت کی قربانی، حکم ِ الٰہی پر اپنی خواہش و محبت کو قربان کرنے کا جذبہ یہ سب چیزیں عبادت کے بنیادی مقاصد میں سے ہیں۔ ورنہ حج اور مَناسک ِ حج یعنی احرام، طواف، وقوفِ مزدلفہ و عرفہ میں تو کوئی خدمت ِ خلق نہیں تو یہ چیزتو عبادت سے ہی خارج ہوجانی چاہیے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ خدمت ِ خلق کو عبادت وسنت و سعادت ضرور جانا جائے لیکن سارا دِین اسی میں ڈھال کر دِین کی عمارت ڈھانے کی کوشش نہ کی جائے۔دین ِ اسلام کے احکام کی تفصیل کے متعلق حقیقی صورت ِ حال یہ ہے کہ کچھ احکام پر عمل ضروری ہوتا ہے کہ انہیں چھوڑنے والا گناہگار ہے خواہ وہ بندہ سوئے بغیر چوبیس گھنٹے خدمتِ خلق میں لگا رہے اور یہ کام فرائض و واجبات کہلاتے ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی وغیرہا۔ اسی کے قریب سنّت موکّدہ کا معاملہ ہے جس کے چھوڑنے کی عادت بنانے والا گناہگار ہے۔ ان کے مقابل کچھ کام وہ ہیں جن سے بچنا ضروری ہے یہ حرام اور مکروہِ تحریمی کہلاتے ہیں جیسے زنا، چوری،سُود،ترکِ نمازوغیرہااوران سے نیچےسنّت ِ موکّدہ چھوڑنے کا درجہ ہے۔ ان اَوامر و نَواہی (یعنی جنہیں لازمی کرنے یا لازمی چھوڑنے کا حکم ہے)کے علاوہ کثیر کام مستحب وغیرہ کے درجے میں آتے ہیں، ان میں مستحبات پر عمل کرنےسے ثواب ملتا ہے لیکن چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں۔

اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ بندے کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے اوپرلازم تمام فرائض و واجبات کو ضرور ادا کرے اور تمام گناہوں سے بچے، پھر اس کے بعد اختیارہے،چاہے تو تمام مستحبات پر عمل کرے یا جس مستحب میں اس کا دل زیادہ لگتا ہے یا اسے زیادہ پسند ہے یا اس کے مزاج کے قریب ہے اسے اختیار کرلےمثلاً کسی کو نماز میں زیادہ لطف آتا ہے تو چاہے وہ باقی سارا وقت نفل پڑھنے میں گزار دے اوراگر کسی کو تلاوتِ قرآن میں بہت سُرُور ملتا ہے تووہ تلاوتِ قرآن میں مصروف رہے۔ جسے درود شریف سے بہت محبت ہے وہ درود شریف پڑھتا رہے۔ یہ سب آدمی کے اختیار پر ہے اور صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضواناور بزرگانِ دین سے یہ سب طریقے مروی ہیں کہ کوئی نماز میں زیادہ مصروف رہا جبکہ کوئی تلاوت میں زیادہ معروف ہوا اور کسی کامعمول درود پڑھنا رہا اور کسی نے خود کو تعلیم ِ دین میں مصروف رکھا۔ الغرض یہ سب مستحب عبادات میں اختیار کی صورتیں ہیں۔

یہی معاملہ خدمتِ خلق کا بھی ہے کہ ایک آدمی جب گناہوں سے بچتا ہے اور فرائض و واجبات کی پابندی کرتا ہے مثلاً نمازیں پوری پڑھتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے، حج فرض ہے تو وہ بھی کرتا ہے،حرا م کمائی سُود، رشوت وغیرہا سے بچتاہے اور اس کے ساتھ خدمتِ خلق کے ضروری احکام پورے کرتا ہے جیسے ماں باپ کی خدمت، بیوی بچوں اور رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی کرتا ہے لیکن اس کے بعد اس کا ذوق یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کی بھلائی کے کام کرتاہے مثلاً کسی کو مشکل میں دیکھا تو اس کی مشکل دُور کردی ، کسی کے بچے کو نوکری چاہئے اس کے لئے مفت میں بھاگ دوڑ کی، کسی غریب کا پتا چلا، اس کی مدد کی یا اس نے کوئی ویلفیئربنائی ہے اور اس میں فنڈ جمع کر کے غریبوں، یتیموں، بیواؤں پر، بچوں کی تعلیم اور غریب بچیوں کی شادی کروانے پر خرچ کرتا ہے تویہ بہت عظیم کارِ ثواب،قرآنی تعلیم و سنّت نبوی پر عمل اور بہترین اعمال میں سے ایک عمل ہے جیسے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ نفع دینے والا ہے۔

(معجم اوسط،ج6،ص58، حدیث:5787)

لہٰذا اگر کوئی آدمی اللہ کی بندگی اور اس کے قُرب کے حصول کے لئے اسی راستے کو اپنائے تو یہ بھی بہت اچھا راستہ ہے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت میں یہ چیز بکثرت نظر آئے گی کہ خلافت سنبھالنے کے بعد خدمتِ خلق کے کاموں میں یوں مصروف رہے کہ عبادت وریاضت سب اپنی جگہ جاری رکھی،جیسے حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ راتوں کو مدینے کی گلیوں میں چکر لگا کر اہلِ مدینہ کے احوال دیکھتے تھے کہ کوئی مشکل میں تو نہیں۔ آپ ہی کا واقعہ ہے کہ ایک عورت کو مشکل میں دیکھا تو اپنے کندھے پر اناج کی بوری لاد کر اس کے پاس پہنچ گئے ،خود کھانا پکا کر اس کے بچوں کو کھلایااور وہیں بیٹھے رہے۔ فرمایا: میں نے ان کو بھوک سے روتے دیکھا تھا اب اپنی آنکھوں سے ہنستے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ خدمتِ خلق ہی تو تھی۔ لہٰذا خدمتِ خلق کے کام اپنی بنياد کے اعتبار سے اچھے ہیں اور اگر اللہتعالیٰ کی رضا کی نیّت سے کرے تو ثواب بھی ملے گا ليكن عبادت، نماز، تلاوت، خدمت ِ مسجدکے کاموں کی اہمیت گھٹانے کےلئے یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ دِین صرف خدمتِ خلق کا نام ہے اورجو خدمتِ خلق میں مصروف ہے اس کو دوسرے احکام پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے دِین کی وُسعت اور تمام پہلوؤں کو سمجھ نہیں پاتے اس لئے غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالاافتااہل سنت ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code