Book Name:Agay Kia Bheja
بَراءَت دے عذابِ قبر سے، نارِ جہنّم سے مہِ شَعْبَان کے صدقے میں کر فضل و کرم مولا
عبادت میں، ریاضت میں، تلاوت میں لگا دے دِل رَجَب کا واسطہ دیتا ہوں فرما دے کرم مولا([1])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
دیکھیے! بالکل سادہ سی مثال ہے؛ جو بچہ سکول جاتا ہے، پڑھتا ہے، محنت کرتا ہے، ڈگری اسی کو ملتی ہے، جو سکول ہی نہ جائے، نہ پڑھے، نہ محنت کرے، ایسا تو نہیں ہوتا کہ ماسٹر صاحِب خُود اس کے گھر آئیں کہ بھائی! یہ لَو B.A کی ڈِگری وصول کر لو...!! ایسا نہیں ہوتا۔ ہم آج آخرت کمائیں گے، تو ہی آخرت میں اَجْر کے حق دار بھی بنیں گے۔ حدیثِ پاک میں ہے:
الكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، وَعَمِلَ لِما بَعْدَ الْموْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَهُ هَواهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ
ترجمہ: عقل مند وہ ہے جو اپنا جائِزہ لے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے، بیوقوف وہ ہے جو نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتا رہے اور اللہ پاک سے (جنّت کی) تمنا رکھے۔([2])
عُلَمائے کرام بڑی پیاری مثال دیتے ہیں، کہتے ہیں: جو بندہ گُنَاہوں میں مَصروف رہے اور جنّت کی تمنّا بھی کرے، وہ خشکی پر کشتی چلانے کی تمنّا رکھتا ہے۔([3])
ظاہِر ہے خشکی پر کشتی نہیں چلتی، کشتی دریا میں چلتی ہے۔ یُوں گُنَاہ کا انجام جنّت نہیں،