Book Name:Meraj e Mustafa Me Seekhne Ki Baatain
(پارہ:21، اَلْرُوم:30)
سیدھا دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
اس آیت میں فطرت سے مراد دِینِ اسلام ہے۔([1]) یعنی فرمایا جا رہا ہے کہ اے لوگو! فطرت (یعنی دِینِ اسلام) کی پیروی کرو! بےشک تمام اِنسانوں کو اِسی فطرت پر ہی پیدا کیا گیا ہے، اب اس کے بعد جو اس فطرت سے مُنہ موڑ کر کسی اَور طرف رُخ کرتا ہے تو وہ شیطان کے چَنْگُل میں پھنسا ہوا ہے۔ ([2])
حدیثِ پاک میں ہے: مَا مِنْ مَوْلُودٍ اِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، اَوْ يُنَصِّرَانِهِ یعنی ہر بچہ فطرت ہی پر پیدا ہوتا ہے، یہ اس کے ماں باپ (Parents)ہیں جو اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔ ([3])
مشہور مفسرِ قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ لکھتے ہیں:فطرت سے مراد ہے: اصلی اور پیدائشی حالت۔ یعنی ہر انسان ایمان (اور دِینِ اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پِھر ہوش سنبھالنے کے بعد جیسا اپنے ماں باپ اور ساتھیوں کو دیکھتا ہے، ویسا ہی بن جاتا ہے۔([4])
پیارے اسلامی بھائیو! اس قرآنی آیت اور حدیثِ نبوی سے معلوم ہوا؛ ہم مخلوق ہیں اور ہمارے خالِق، ہمارے بنانے والے رَبِّ کریم نے ہمیں پیدا ہی اس اَنداز پر کیا ہے کہ دِین، ایمان، تَوحِید، یہ سب کچھ ہماری فطرت میں رکھا گیا ہے۔